مسند احمد
مسنَد المَكِّیِّینَ -- 0
253. حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 15975
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ فِي مَسْجِدِ أَهْلِهِ أَسْأَلُهُ عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ بِالنَّهْرَوَانِ، فَِيمَا اسْتَجَابُوا لَهُ، وَفِيمَا فَارَقُوهُ، وَفِيمَا اسْتَحَلَّ قِتَالَهُمْ، قَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَهْلِ الشَّامِ، اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ: أَرْسِلْ إِلَى عَلِيٍّ بِمُصْحَفٍ، وَادْعُهُ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لَنْ يَأْبَى عَلَيْكَ , فَجَاءَ بِهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ , فَقَالَ عَلِيٌّ: نَعَمْ، أَنَا أَوْلَى بِذَلِكَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ. قَالَ: فجاءته الخوارج وَنَحْنُ نَدْعُوهُمْ يَوْمَئِذٍ: الْقُرَّاءَ، وَسُيُوفُهُمْ عَلَى عَوَاتِقِهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا نَنْتَظِرُ بِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ عَلَى التَّلِّ؟ أَلَا نَمْشِي إِلَيْهِمْ بِسُيُوفِنَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَتَكَلَّمَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي الصُّلْحَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ:" بَلَى"، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي أَبَدًا"، قَالَ: فَرَجَعَ وَهُوَ مُتَغَيِّظٌ , فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى أَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: بَلَى , قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا , قَالَ: فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ، قَالَ: فَأَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُمَرَ، فَأَقْرَأَهَا إِيَّاهُ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفَتْحٌ هُوَ؟ قَالَ:" نَعَمْ".
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابو وائل کے پاس ان کے گھر کی مسجد میں آیا تاکہ ان سے ان لوگوں کے متعلق پوچھ سکوں جنہیں سیدنا علی نے نہروان کے مقام پر قتل کیا تھا انہوں نے سیدنا علی کی کون سی بات مانی کس میں اختلاف کیا۔ اور سیدنا علی نے کس بناء پر ان سے قتال کو جائز سمجھا وہ کہنے لگے کہ ہم لوگ صفین میں تھے جب اہل شام کے مقتولین کی تعداد زیادہ بڑھنے لگی تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور سیدنا عمرو بن عاص نے سیدنا امیر معاویہ سے کہا کہ آپ سیدنا علی کے پاس قرآن کر یم کا ایک نسخہ بھیجیے اور انہیں کتاب اللہ کی دعوت دیجیے وہ آپ کی بات سے کسی صورت انکار نہیں کر یں گے۔ چنانچہ سیدنا علی کے پاس ایک آدمی یہ پیغام لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ثالث ہے اور یہ آیت پڑھی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا وہ انہیں کتاب اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا زیادہ حق دارہوں ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ثالث ہے اس کے بعد خوارج جنہیں ہم اس وقت قراء کہتے تھے سیدنا علی کے پاس اپنے کندھوں پر تلواریں لٹکائے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ اے امیر المومنین یہ لوگ جو ٹیلے پر ہیں ان کے متعلق ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کیا ہم ان پر اپنی تلواریں لے کر حملہ نہ کر دے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔ اس پر سیدنا سہل بن حنیف بولے اور کہنے لگے اے لوگو اپنے آپ کو ہمیشہ صحیح مت سمجھا کر و ہم نے حدیبیہ کا وہ دن بھی دیکھا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان صلح ہوئی تھی اگر ہم جنگ کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اسی دوران سیدنا عمر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں وہ کہنے لگے کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں دب کر صلح کیوں کر یں اور اسی طرح واپس لوٹ جائیں کہ اللہ نے ابھی تک ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب میں اللہ کا پیغمبر ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہیں کر ے گا۔ سیدنا عمر اسی طرح غصے کی حالت میں واپس چلے گئے اور ان سے صبر نہ ہو سکا وہ سیدنا ابوبکر کے پاس پہنچے اور ان سے بھی یہی سوال و جواب ہوئے سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا: وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کر ے گا اس کے بعد سورت فتح نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا عمر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ سورت پڑھ کر سنائی سیدنا عمر کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔