صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الانفال میں) یہ فرمانا کہ ”ڈرو اس فتنہ سے جو ظالموں پر خاص نہیں رہتا (بلکہ ظالم و غیر ظالم عام خاص سب اس میں پس جاتے ہیں)“۔
حدیث نمبر: 7051
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، فَمَنْ وَرَدَهُ شَرِبَ مِنْهُ، وَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ أَبَدًا، لَيَرِدُ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونِي، ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: فَسَمِعَنِي النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ وَأَنَا أُحَدِّثُهُمْ هَذَا، فَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْتَ سَهْلًا، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لَسَمِعْتُهُ يَزِيدُ فِيهِ، قَالَ: إِنَّهُمْ مِنِّي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سہل بن سعد سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں حوض کوثر پر تم سے پہلے رہوں گا جو وہاں پہنچے گا تو اس کا پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پی لے گا وہ اس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہو گا۔ میرے پاس ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ ڈال دیا جائے گا۔ ابوحازم نے بیان کیا کہ نعمان بن ابی عیاش نے بھی سنا کہ میں ان سے یہ حدیث بیان کر رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ کیا تو نے سہل رضی اللہ عنہ سے اسی طرح یہ حدیث سنی تھی؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اسی طرح سنی تھی۔ ابوسعید اس میں اتنا بڑھاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا تبدیلیاں کر دی تھیں؟ میں کہوں گا کہ دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7051  
7051. ابو حازم نے کہا کہ نعمان بن ابو عیاش نے مجھے بیان کرتے ہوئے سنا تو کہا: تم نے حضرت سہل ؓ سے اسی طرح سنا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں: انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی ابو سعید خدری ؓ سے روایت اسی طرح سنی ہے البتہ وہ اس میں اضافہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لوگ مجھ سے ہیں۔ آپ کو کہا جائے گا: تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس وقت میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد (دین میں) تبدیلیاں کر دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7051]
حدیث حاشیہ:
یعنی اسلام سے مرتد ہوگئے۔
حافظ نے کہا اس صورت میں تو کوئی اشکال نہ ہوگا اگر بدعتی یا دوسرے گنہگار مراد ہوں تو بھی ممکن ہے کہ اس وقت حوض پر آنے سے روک دیے جائیں۔
معاذ اللہ دین میں نئی بات۔
یعنی بدعت نکالنا کتنا بڑا گناہ ہے۔
ان بدعتیوں کو پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاکر پھر جو ہٹالے جائیں گے، اس سے یہ مقصود ہوگا کہ ان کو اور زیادہ رنج ہو جیسے کہتے ہیں:
قسمت کی بدنصیبی ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا یا اس لیے کہ دوسرے مسلمان ان کے حال پر اختلال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
مسلمانو! ہوشیار ہو جاؤ بدعت سے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7051   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7051  
7051. ابو حازم نے کہا کہ نعمان بن ابو عیاش نے مجھے بیان کرتے ہوئے سنا تو کہا: تم نے حضرت سہل ؓ سے اسی طرح سنا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں: انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی ابو سعید خدری ؓ سے روایت اسی طرح سنی ہے البتہ وہ اس میں اضافہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لوگ مجھ سے ہیں۔ آپ کو کہا جائے گا: تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس وقت میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد (دین میں) تبدیلیاں کر دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7051]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین میں تبدیلی دو طرح سے ممکن ہے۔
ایک یہ کہ مرتد ہو کر اس سے پھر جائیں جیسا کہ کچھ لوگ مسیلمہ کذاب سے مل گئے اس قسم کے ملعون تو جنت سے بالکل محروم ہوں گے کیونکہ انھوں نے تو دین کی بنیاد ہی ختم کر ڈالی اور دوسری تبدیلی اس طرح کی ہو گی کہ آپس میں ظلم و ستم کیا ہو گا۔
اس طرح کے لوگ وقتی طور پر حوض کوثر سے دور کر دیے جائیں گے۔
پھر سزا بھگت کر یا سفارش کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے کیونکہ ایسے لوگ مشرک نہیں جنھیں بالکل جنت سے محروم کردیا جائے۔
یہ لوگ کبیرہ گناہ والوں کی طرح ہوں گے جنھیں بالآخر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔
(فتح الباري: 13/7)

بہر حال بدعت کا ارتکاب بہت سنگین جرم اور عظیم فتنہ ہے۔
انھیں پہلےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جائے گا۔
پھر انھیں وہاں سے ہٹایا جائے گا۔
اس سے مقصود یہ ہے کہ انھیں اور زیادہ تکلیف ہو جیسا کہ کہا جاتا ہے۔
۔
۔
قسمت کی بد نصیبی ٹوٹی کہاں کمند۔
۔
۔
۔
دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7051