صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ”میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے“۔
حدیث نمبر: 7054
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے جعد ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے ابورجاء العطاردی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے امیر کی کوئی ناپسند چیز دیکھی تو اسے چاہے کہ صبر کرے اس لیے کہ جس نے جماعت سے ایک بالشت بھر جدائی اختیار کی اور اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیت کی سی موت مرے گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7054  
7054. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لیے کہ جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7054]
حدیث حاشیہ:
امام احمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے گو تم اپنے تئیں حکومت کا حق دار سمجھو جب بھی اس رائے پر نہ چلو بلکہ حاکم وقت کی اطاعت کرو، اس کا حکم سنو، یہاں تک کہ اگر اللہ کو منظور ہے تو بن لڑے بھڑے تم کو حکومت مل جائے۔
ابن حبان اور امام احمد کی روایت میں ہے گو یہ حاکم تمہارا مال کھائے، تمہاری پیٹھ پر مار لگائے یعنی جب بھی صبر کرو۔
اگر کفر کرے تو اس سے لڑنے پر تم کو مواخذہ نہ ہوگا۔
دوسری روایت میں یوں ہے جب تک وہ تم کو صاف اور صریح گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔
تیسری روایت میں ہے جو حاکم اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے۔
ابن ابی شیبہ کی روایت میں یوں ہے تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جو تم کو ایسی باتوں کا حکم کریں گے جن کو تم نہیں پہچانتے اور ایسے کام کریں گے جن کو تم برا جانتے ہو تو ایسے حاکموں کی اطاعت کرنا تم کو ضروری نہیں یہ جو فرمایا اللہ کے پاس تم کو دلیل مل جائے گی یعنی اس سے لڑنے اور اس کی مخالفت کرنے کی سند تم کو مل جائے گی۔
اس سے یہ نکلا کہ جب تک حاکم کے قول و فعل کی تاویل شرعی ہو سکے۔
اس وقت تک اس سے لڑنا یا اس پر خروج کرنا جائز نہیں البتہ اگر صاف و صریح وہ شرع کے مخالف حکم دے تو اور قواعد اسلام کے برخلاف چلے جب تو اس پر اعتراض کرنا اور اگر نہ مانے تو اس سے لڑنا درست ہے۔
داؤدی نے کہا اگر ظالم حاکم کا معزول کرنا بغیر فتنہ اور فساد کے ممکن ہو تب تو واجب ہے کہ وہ معزول کر دیا جائے ورنہ صبر کرنا چاہئے۔
بعضوں نے کہا ابتداء فاسق کو حاکم بنانا درست نہیں اگر حکومت ملتے وقت عادل ہو پھر فاسق ہو جائے اس پر خروج کرنے میں علماء کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ خروج اس وقت تک جائز نہیں جب تک اعلانیہ کفر نہ کرے، اگر اعلانیہ کفر کی باتیں کرنے لگے اس وقت اس کو معزول کرنا واجب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7054   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7054  
7054. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لیے کہ جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7054]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث میں امیر سے مراد ہماری تنظیموں کے امیر نہیں بلکہ خلیفہ اسلام ہے جو صحیح معنوں میں صاحب اقتدار ہو۔
ایسے صاحب اختیارخلیفے کی اطاعت ضروری ہے۔
معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر قانون شکنی نہ کی جائے اور نہ بغاوت کا راستہ ہی ہموار کیا جائے۔
اگر ایسا کیا تو عہد جاہلیت کی یاد تازہ ہوگی کیونکہ دور جاہلیت میں لاقانونیت کا دور دورہ تھا اور وہ لوگ ہر قسم کے قانون سے بالا زندگی گزارنے کے عادی تھے۔

اگر کوئی حکمران وقت سے بغاوت کرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خونریزی اور فتنہ و فساد زور پکڑے گا۔
انسانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت اسی میں ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کی جائے۔
سازشوں اور فتنوں کو دبانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔
ہاں اگر حاکم وقت کھلا کفر کرے تو ایسے حالات میں جہاں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہو وہاں ان کی اطاعت نہ کی جائے۔

جماعت سے علیحدگی کی صورت یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے خلاف سرکشی کی کوشش کرے اگرچہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہو اس مذموم کوشش کا نتیجہ فساد اور خونریزی ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7054