صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ”میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے“۔
حدیث نمبر: 7056
فَقَالَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا: أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ".
انہوں (عبادہ بن صامت) نے بیان کیا کہ جن باتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی و ناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو اعلانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں۔ اگر وہ اعلانیہ کفر کریں تو تم کو اللہ کے پاس سے دلیل مل جائے گی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866  
´بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

(2)
زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:

(ا)
مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

(ب)
راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔

(ج)
بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔

(د)
بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔
حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔

(3)
حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

(4)
اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔
اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔

(5)
جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2866   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7056  
7056. انہوں نے مزید کہا: آپ ﷺ ہم سے جن باتوں کا عہد لیا تھا وہ یہ تھیں کہ ہم خوشی وناگواری، تنگی و کشادگی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینے کی صورت میں بھی اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور حکمرانوں کے ساتھ حکومتی معاملات میں کوئی جھگڑا نہیں کریں گے: الا یہ کہ تم انہیں اعلانیہ کفر کرتے دیکھو اور تمہارے پاس اس کے متعلق کوئی واضح دلیل ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7056]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث کا فتنوں کے ساتھ اس طرح تعلق ہے کہ جو آدمی کسی ملک کا باضابطہ شہری ہے تو اس پر ملک کے قانون کا احترام کرنا اور باتوں میں حکمرانوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔
اگر وہ دیکھتا ہے کہ اسے حقوق نہیں دیے جا رہے یا حکمران غلط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں تو اسے یہ اجازت ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر احتجاج کرے لیکن یہ احتجاج سول نافرمانی کی شکل میں نہیں ہونا چاہیےاور نہ دھرنا دینے اور توڑ پھوڑ کرنے ہی کی اجازت ہے۔
اسی طرح احتجاج کے طور پر خود کش حملے کرنا بھی ناجائز ہے۔
اس سے ملک میں بدامنی، بے چینی انار کی اور فساد پھیلتا ہے۔
یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جن کے انسانی اجسام میں شیطانی دل ہوں گے وہ میرے طریقے کی کوئی پروا نہیں کریں گے۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے حالات میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا:
ایسے حکمرانوں کی بات سنی جائے اور ان کی اطاعت کی جائے اگرچہ وہ تمھارا مال کھا جائیں اور تمھاری پیٹھ پر ماریں۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4785(1847)

ایسے حکمران کو اگر بغیر فتنہ و فساد کے معزول کرنا ممکن ہو تو اس کا معزول کرنا ضروری ہے بصورت دیگر صبر کیا جائے۔
ایسے حالات میں خواہ مخواہ حکومت سے ٹکر لینا درست نہیں اور نہ جیل بھرو تحریک ہی شروع کرنی چاہیے۔

بہرحال ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حکمت بھرے انداز میں ڈنکے کی چوٹ کلمہ حق کہتا رہے۔
ایسے غلط کار حکمرانوں کے متعلق دل میں نفرت کے جذبات رکھے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتا رہے۔
مسلح اقدام سے ہر صورت میں گریز کیا جائے۔
اس قسم کی تحریکات سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہےاس قسم کے پرفتن دور میں بڑی دور اندیشی سے کام لینا چاہیے، جذبات میں آ کر کوئی ایسا کام نہ کیا جائے۔
جس سے اسلام یا اہل اسلام کو نقصان پہنچے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7056