صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
10. بَابُ إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا:
باب: جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 7083
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: خَرَجْتُ بِسِلَاحِي لَيَالِيَ الْفِتْنَةِ فَاسْتَقْبَلَنِي أَبُو بَكْرَةَ،فَقَالَ:" أَيْنَ تُرِيدُ، قُلْتُ: أُرِيدُ نُصْرَةَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَكِلَاهُمَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ، قِيلَ: فَهَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟، قَالَ: إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ"، قَالَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِأَيُّوبَ،وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ يُحَدِّثَانِي بِهِ، فَقَالَا: إِنَّمَا رَويَ هَذَا الحَدِيثَ الْحَسَنُ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ بِهَذَا، وَقَالَ مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَيُونُسُ، وَهِشَامٌ، وَمُعَلَّى بْنُ زِيَادٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الْأَحْنَفِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَرَوَاهُ بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَقَالَ غُنْدَرٌ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایک شخص نے جس کا نام نہیں بتایا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ باہمی فسادات کے دنوں میں میں اپنے ہتھیار لگا کر نکلا تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے راستے میں ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے کی (جنگ جمل و صفین میں) مدد کرنی چاہتا ہوں، انہوں نے کہا لوٹ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کو لے کر آمنے سامنے مقابلہ پر آ جائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ پوچھا گیا یہ تو قاتل تھا، مقتول نے کیا کیا (کہ وہ بھی ناری ہو گیا)؟ فرمایا کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا۔ حماد بن زید نے کہا کہ پھر میں نے یہ حدیث ایوب اور یونس بن عبید سے ذکر کی، میرا مقصد تھا کہ یہ دونوں بھی مجھ سے یہ حدیث بیان کریں، ان دونوں نے کہا کہ اس حدیث کی روایت حسن بصری نے احنف بن قیس سے اور انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کی۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زید نے یہی حدیث بیان کی اور مؤمل بن ہشام نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب، یونس، ہشام اور معلی بن زیاد نے امام حسن بصری سے بیان کیا، ان سے احنف بن قیس اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت معمر نے بھی ایوب سے کی ہے اور اس کی روایت بکار بن عبدالعزیز نے اپنے باپ سے کی اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اور غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ربعی بن حراش نے، ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور سفیان ثوری نے بھی اس حدیث کو منصور بن معتمر سے روایت کیا، پھر یہ روایت مرفوعہ نہیں ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 30  
´حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 30]

تشریح:
اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تو وہ لوٹ گئے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دو مسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت «فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى» [الحجرات: 9] سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انہوں نے ابوبکرہ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 30   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3965  
´جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3965]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہنم کے کنارے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے ان دونوں کے جہنمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ان کے لیے جہنم سے بچنے کا موقع باقی ہوتا ہے کہ لڑائی سے باز آجائیں۔

(2)
مومن کا قتل جہنم میں پہنچانے والا عمل ہے البتہ توبہ یا قصاص سے یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3965   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4268  
´فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے۔`
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے (راستہ میں) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4268]
فوائد ومسائل:
1) جب معاملہ کوئی واضح اور صریح نہ ہو اور دونوں جانب حق کا ایک پہلو موجود ہو تو ایسی صورت می الگ تھلگ رہنا مفید تر ہو تا ہے۔

2) اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
جب دو شخص برسرِ پیکار ہوں معاملے اور نیتوں میں واضح فرق نہ ہو تو مقتول بھی قاتل کی طرح کہا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایک کا داؤ چل گیا اور دوسرا گھائل ہو گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4268   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7083  
7083. حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے (احنف بن قیس سے بیان کیا انہوں نے) کہا: میں فسادات کے زمانے میں اپنے ہتھیار لے کر نکلا تو راستے میں حضرت ابو بکرہ ؓ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد(حضرت علی ؓ) کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب وہ مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ کہا گیا یہ تو قاتل تھا لیکن مقتول کا قصور ہے؟آپ نے فرمایا: اس نے بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7083]
حدیث حاشیہ:

فسادات کے زمانے سے مراد جنگ جمل اور جنگ صفین کا زمانہ ہے۔
جب وہ مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آ جائیں تو دونوں اجتہاد تاویل میں خطا کار ہوں گے یا ان میں سے ایک برحق اور دوسرا خطا کار ہوگا۔
ان میں تیسری صورت نہیں ہے کہ دونوں برحق ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق ایک ہے۔

پہلی صورت میں اگردونوں کے متعلق اصلاح کی امید ہوتو ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے اور اگر اصلاح کی امید نہ ہو تو دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔
اپنی تلواروں کو توڑ کر گھر میں رہنا چاہیے۔
لڑائی کا حصہ بالکل ہی نہیں بننا چاہیے۔

دوسری صورت میں جبکہ ایک غلط اور دوسرا صحیح ہو تو صحیح موقف والے کی موافقت کرنا ضروری ہے۔

یہاں ایک اور صورت بھی ممکن ہے کہ دونوں مجتہد نہ ہوں بلکہ دونوں ظالم ہوں اور خاندانی عصبیت یا ہوس ملک گیری کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں تو بھی کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
دونوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے لیکن صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے باہمی جھگڑوں کے متعلق خاموشی اختیار کرنے میں عافیت ہے۔
ان کے متعلق زبان کھولنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔

حدیث میں وہ دو مسلمان مراد ہیں جو ذاتی عناد مخالفت یا دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے کو قتل کرنے پرآمادہ ہوں۔
اگرچہ قاتل ایک ہوگا لیکن مقتول بھی اس کے قتل کرنے کے متعلق حریص تھا اتفاق سے اس کا داؤ نہیں چلا، اس لیے وہ قتل ہوگیا، لہذا سزا کے دونوں حق دار ہوں گے، پھر ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے اگر چاہے تو ان کو سزا دے اور چاہے تو انھیں معاف کر دے۔
لیکن مجتہدین کے متعلق یہ حکم نہیں ہوگا جس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔
بعض حضرات نے حدیث کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کو حلال خیال کریں۔
(فتح الباري: 43/13)

ایک دوسری حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک لوگوں پر یہ وقت نہ آئے کہ قاتل کو قتل کرنے کی وجہ معلوم نہ ہو اور مقتول کو اپنے قتل ہونے کا سبب معلوم نہ ہو۔
پوچھا گیا:
ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ نے فرمایا:
جب قتل وغارت گری عام ہوگی۔
ایسے حالات میں قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔
واللہ أعلم۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7304(2908)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7083