صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
11. بَابُ كَيْفَ الأَمْرُ إِذَا لَمْ تَكُنْ جَمَاعَةٌ:
باب: جب (مسلمانوں کی) جماعت نہ ہو تو معاملہ کیسے ہو گا؟
حدیث نمبر: 7084
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، يَقُولُ:" كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟، قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن جابر نے بیان کیا، ان سے بسر بن عبیداللہ الخصرمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوادریس خولانی سے سنا، انہوں نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا۔ اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں لیکن اس خیر میں کمزوری ہو گی۔ میں نے پوچھا کہ کمزوری کیا ہو گی؟ فرمایا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے، ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم برائی دیکھو گے۔ میں نے پوچھا کیا پھر دور خیر کے بعد دور شر آئے گا؟ فرمایا کہ ہاں جہنم کی طرف سے بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس میں انہیں جھٹک دیں گے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ان کی کچھ صفت بیان کیجئے۔ فرمایا کہ وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان (عربی) بولیں گے۔ میں نے پوچھا: پھر اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو آپ مجھے ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا۔ میں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو؟ فرمایا کہ پھر ان تمام لوگوں سے الگ ہو کر خواہ تمہیں جنگل میں جا کر درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت آ جائے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3979  
´(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3979]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیﷺ کے بعد ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو باطل کی طرف دعوت دینے والے تھے اور عام لوگ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ان کی بات مان لیتے تھے۔

(2)
خارجی معتزلہ شیعہ اور جہیمیہ وغیرہ فرقے صحابہ وتابعین کے دور میں پیدا ہوئے۔
صحابہ و تابعین نے ان کی تردید کی اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا۔

(3)
اختلافات کے اس دور میں صحیح راستہ وہی تھا جس پر صحابہ کرام اور تابعین قائم تھے۔
بعد میں پيدا ہونے والے اختلافات میں بھی صحابہ وتابعین کا طرز عمل ہی قابل اتباع ہے۔

(4)
جماعت المسلمین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ان فرقوں سے الگ ہیں مثلاً:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک فرقہ ان کی محبت میں غلو کا شکار ہوا جیسے:
کیسانیہ اور دوسرے شیعہ فرقے۔
ایک فرقہ ان کی مخالفت میں حد سے بڑھ گیا مثلاً:
خارجی اور ناصبی۔
عام مسلمانوں ان دونوں سے الگ رہے انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلیفہ راشد تسلیم کیا لیکن انھیں معصوم نہیں مانا ان کے لیے الله کے نور میں سے نور ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا۔
یہی عام مسلمانوں جماعت المسلمین (مسلمانوں کی جماعت)
ہیں۔
علاوہ ازیں خروج و بغاوت کے زمانے میں خلیفہ وقت کے ساتھ رہنا بھی اسی کے مفہوم میں شامل ہے۔

(5)
مسلمانوں کے امام سے مراد وہ حکمران اور خلیفہ ہے جو اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے معاملات کا انتظام کرتا اور دوسرے فرائض انجام دیتا ہے مثلاً:
اسلامی سلطنت کی سر زمین کی حفاظت دشمن ملکوں کے خلاف جہاد زکاۃ وغیرہ کی وصولی اور تقسیم بیت المال کا دوسرا انتظام مجرموں کی گرفتاری اور سزا، مسلمانوں کے جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور اس مقصد کے لیے قاضی او جج مقرر کرنا وغیرہ۔

(6)
بعض لوگوں نے مسلمانوں کی جماعت کا مصداق ایک خودساختہ جماعت کو قراردینے کی کوشش کی ہےحالانکہ جماعۃ المسلمین کا لفظ اسم علم کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔
ورنہ نہ اِمَامَهم (ان کے امام)
کے بجائےاِمَامَها (اس جماعت کا امام)
فرمایا جاتا۔
جو امام مسلمانوں کا دفاع نہیں کرسکتا اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے ساتھ پیوستگی کا حکم ناقابل فہم ہے۔

(7)
فتنوں کے زمانے میں کسی پارٹی کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں البتہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرنا اسلامی سلطنت کے دفاع اور قوت کے لیے ضروری ہے۔

(8)
دور حاضر میں مختلف مذہبی تنظیمیں صرف تعاون علي البر کی بنیاد پر قائم ہیں۔
ان کے ساتھ وابستگی یا عدم وابستگی کا تعلق اسلام کے بنیادی احکام سے نہیں۔
ان میں سی کسی ایک جماعت یا بیک وقت متعدد جماعتوں سے تعاون درست ہے جب تک وہ کوئی غلط کام نہ کریں۔
جو کام غلط ہو اس میں تعاون جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3979   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4244  
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔`
سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4244]
فوائد ومسائل:
1) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔
عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔

2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔

3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔
چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔

4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔
اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔

5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔

6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہون گی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4244   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7084  
7084. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں اس ڈر سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہیں میری زندگی ہی میں شر پیدا نہ ہوجائے، چنانچہ میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس میں کچھ دخن ہوگا میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا۔ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ ہوں گے جو میرے بتائے ہوئے طریقے کے برعکس چلیں گے۔ ان کی کچھ باتیں اچھی ہوں گی اور بعض باتوں میں تم برائی دیکھو گے۔ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا دور آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جہنم کے دروازوں پر اس کی دعوت دینے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7084]
حدیث حاشیہ:
(1)
محدثین نے کہا کہ پہلی برائی سے وہ فتنے مراد ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئے اور دوسری بھلائی سے جو عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ تھا‘ وہ مراد ہے اور ان کے بعد کا اس زمانہ میں کوئی خلیفہ عادل ہوتا متبع سنت‘ کوئی ظالم ہوتا بد عتی جیسے خلفاء عباسیہ میں مامون رشید بڑا ظالم گزرا پھر متوکل علی اللہ اچھا تھا۔
اس نے امام احمد کو قید سے خلاصی دی اور معتزلہ کی خوب سر کوبی کی۔
بعضوں نے کہا پہلی برائی سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل‘ دوسری بھلائی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ مراد ہے اور دھوئیں سے خارجیوں اور رافضیوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری برائی سے بنی امیہ کا زمانہ مراد ہے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بر سر منبر برا کہا جاتا ہے‘ میں (وحید الزماں)
کہتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس حدیث سے واللہ اعلم یہ ہے کہ ایک زمانہ تک جو نقشہ میرے زمانہ میں ہے یہی چلتا رہے گا اور بھلائی قائم رہے گی یعنی کتاب وسنت کی پیروی کرتے رہیں گے جیسے سنہ400ھ تک رہا اس کے بعد برائی پیدا ہوگی یعنی لوگ تقلید شخصی میں گرفتار ہو کر کتاب وسنت سے بالکل منہ موڑ لیں گے بلکہ قرآن وحدیث کی تحصیل بھی چھوڑ دیں گے۔
قرآن وحدیث کے بدل دوسری کتابیں پڑھنے لگیں گے۔
دین کے مسائل بعوض قرآن وحدیث کے ان کتابوں سے نکالے جائیں گے۔
(2)
یعنی ان کی جماعت میں جا کر شریک ہونا ان کی تعداد بڑھانا منع ہے۔
ابویعلیٰ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی کہ جو شخص کسی قوم کی جماعت کو بڑھائے وہ ان ہی میں سے ہے اور جو شخص کسی قوم کے کاموں سے راضی ہو وہ گویا خود وہ کام کر رہا ہے۔
اس حدیث سے اہل حدیث اور فسق کی مجلسوں میں شریک اور ان کا شمار بڑھانے کی ممانعت نکلتی ہے گو یہ آدمی ان کے اعتقاد اور عمل میں شریک نہ ہو جو کوئی حال قال چراغاں عرس گانے بجانے کی محفل میں شریک ہو وہ بھی بدعتیوں میں گنا جائے گا گو ان کاموں کو اچھا نہ جانتا ہو۔
(از وحیدالزماں)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7084   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7084  
7084. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں اس ڈر سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہیں میری زندگی ہی میں شر پیدا نہ ہوجائے، چنانچہ میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس میں کچھ دخن ہوگا میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا۔ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ ہوں گے جو میرے بتائے ہوئے طریقے کے برعکس چلیں گے۔ ان کی کچھ باتیں اچھی ہوں گی اور بعض باتوں میں تم برائی دیکھو گے۔ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا دور آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جہنم کے دروازوں پر اس کی دعوت دینے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7084]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں امام سے مراد کسی تنظیم کا امیر یا صدر نہیں اور نہ وہ سربراہِ حکومت ہی مراد ہیں جو مغربی جمہوریت کی پیداوار ہیں بلکہ اس سے مراد خلیفۃ المسلمین ہے جوتمام مسلمانوں کا سربراہ ہو،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر ان دنوں زمین پر کوئی خلیفہ ہو تو اسے لازم پکڑو اگرچہ وہ تجھے سخت مارے اور تیرا سارا مال چھین لے۔
(مسندأحمد: 403/5، و الدیلمي: 31519 رقم 5621)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے پرفتن دور میں زندگی بسر کرنے کا منہج اور طریقہ بتایا ہے اگر عالم اسلام میں مسلمانوں کا کوئی امیر ہو تو اس کی اطاعت کی جائے اگرچہ اس میں کچھ نقص بھی ہو اور کچھ منکرات کا مرتکب بھی ہو اور اگر مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وزن کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالنے کے بجائے علیحدگی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت وفرماں برداری کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر تیسری صورت جماعت تشکیل دینے کی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ضرور ہدایت فرماتے کہ تم ایسے حالات میں خود کوئی جماعت بنالو اور ان میں سے ایک امیر منتخب کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرتے رہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ پرفتن دور میں جماعت بنانا اور لوگوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے خلاف ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق خلیفے کی عدم موجودگی میں امارت کے چکر میں پڑ جانے کے بجائے انفرادی یا اجتماعی طور پر قرآن وحدیث پر خود عمل کیا جائے اور یہی دعوت لوگوں میں پھیلائی جائے، نیز جماعتی تعصب سے خود کو بالاتر رکھا جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7084