صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
12. بَابُ مَنْ كَرِهَ أَنْ يُكَثِّرَ سَوَادَ الْفِتَنِ وَالظُّلْمِ:
باب: جس نے مفسدوں اور ظالموں کی جماعت کو بڑھانا ناپسند کیا۔
حدیث نمبر: 7085
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ وَغَيْرُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، وَقَالَ اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَالَ:" قُطِعَ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَعْثٌ، فَاكْتُتِبْتُ فِيهِ، فَلَقِيتُ عِكْرِمة، فَأَخْبَرْتُهُ، فَنَهَانِي أَشَدَّ النَّهْيِ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا مَعَ الْمُشْرِكِينَ يُكَثِّرُونَ سَوَادَ الْمُشْرِكِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتِي السَّهْمُ فَيُرْمَى، فَيُصِيبُ أَحَدَهُمْ فَيَقْتُلُهُ، أَوْ يَضْرِبُهُ فَيَقْتُلُهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ سورة النساء آية 97.
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے حیوہ بن شریح وغیرہ نے بیان کیا کہ ہم سے ابوالاسود نے بیان کیا، یا لیث نے ابوالاسود سے بیان کیا کہ اہل مدینہ کا ایک لشکر تیار کیا گیا (یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں شام والوں سے مقابلہ کرنے کے لیے) اور میرا نام اس میں لکھ دیا گیا۔ پھر میں عکرمہ سے ملا اور میں نے انہیں خبر دی تو انہوں نے مجھے شرکت سے سختی کے ساتھ منع کیا۔ پھر کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے خبر دی ہے کہ کچھ مسلمان جو مشرکین کے ساتھ رہتے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف (غزوات) میں مشرکین کی جماعت کی زیادتی کا باعث بنتے۔ پھر کوئی تیر آتا اور ان میں سے کسی کو لگ جاتا اور قتل کر دیتا یا انہیں کوئی تلوار سے قتل کر دیتا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم‏» بلا شک وہ لوگ جن کو فرشتے فوت کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7085  
7085. حضرت ابو اسود سے روایت ہے انہوں نے کہا: اہل مدینہ کا ایک لشکر تیار کیا گیا تو میرا بھی اس میں نام لکھا گیا۔ میں حضرت عکرمہ سے ملا تو میں نے انہیں بتایا۔ انہوں نے بڑی سختی سے اس میں شرکت سے منع کیا۔ پھر انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے بتایا کہ کچھ مسلمان جو مشرکین کے ساتھ رہتے تھے وہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف مشرکین کی تعداد بڑھانے کا باعث بنتے پھر کوئی تیر آتا تو تیر لگنے سے وہ قتل ہو جاتا یا انہیں کوئی تلوار سے مار دیتا تو ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوئی: بے شک وہ لوگ جنہیں فرشتے اس حالت میں فوت کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7085]
حدیث حاشیہ:
حضرت عکرمہ کا مطلب یہ تھا کہ یہ مسلمان مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نہیں نکلتے تھے بلکہ کافروں کی جماعت بڑھانے کے لیے نکلے تب اللہ تعالیٰ نے ان کو ظالم اور گنہگار ٹھہرایا بس اسی قیاس پر جو لشکر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلے گا یا ان کے ساتھ جو نکلے گا گنہگار ہوگا گو اس کی نیت مسلمانوں سے جنگ کرنے کی نہ ہو۔
من کثر سواد قوم الخ کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7085   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7085  
7085. حضرت ابو اسود سے روایت ہے انہوں نے کہا: اہل مدینہ کا ایک لشکر تیار کیا گیا تو میرا بھی اس میں نام لکھا گیا۔ میں حضرت عکرمہ سے ملا تو میں نے انہیں بتایا۔ انہوں نے بڑی سختی سے اس میں شرکت سے منع کیا۔ پھر انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے بتایا کہ کچھ مسلمان جو مشرکین کے ساتھ رہتے تھے وہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف مشرکین کی تعداد بڑھانے کا باعث بنتے پھر کوئی تیر آتا تو تیر لگنے سے وہ قتل ہو جاتا یا انہیں کوئی تلوار سے مار دیتا تو ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوئی: بے شک وہ لوگ جنہیں فرشتے اس حالت میں فوت کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7085]
حدیث حاشیہ:

جس لشکر میں ابوالاسود کا نام لکھا گیا تھا وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں اہل شام کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیار ہوا تھا۔
ابوالاسود نے حضرت عکرمہ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے منع کر دیا۔
ابوالاسود نے کہا:
میرا مقصود اہل شام سے لڑنا نہیں بلکہ میں تو صرف لشکر کی تعداد بڑھانا چاہتا ہوں۔
اس پر حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ مشرکین کی تعداد بڑھانے کے لیے ان کے ساتھ جاتے تھے۔
تمہارا مقصد بھی یہی ہے تم بھی اپنے لشکر کی تعداد بڑھانا چاہتے ہو۔
تمہارا اہل شام سے لڑنے کا پروگرام نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ کیونکہ اس نے ان مسلمانوں کو ظالم اور گناہ گار ٹھہرایا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ فتنے کے زمانے میں جو فتنہ پروروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اگرچہ اس کی نیت کتنی ہی صاف ہو، اللہ تعالیٰ کو یہ ادا پسند نہیں ہے، لہذا ایسے نازک حالات میں ایک مسلمان کو خوب سوچ سمجھ کر کوئی اقدام کرنا چاہیے اس کے کسی قول وفعل سے دوسروں کو غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7085