صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
13. بَابُ إِذَا بَقِيَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ:
باب: جب کوئی برے لوگوں میں رہ جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 7086
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا:" أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ، وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا، قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ، فَيَبْقَى فِيهَا أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، وَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ فَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ، فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ، وَمَا أَظْرَفَهُ، وَمَا أَجْلَدَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَلَا أُبَالِي أَيُّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا رَدَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامُ، وَإِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا رَدَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، وَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ أُبَايِعُ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا، ان سے حذیفہ نے بیان کیا کہا ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو احادیث فرمائی تھیں جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی دوسری کا انتظار ہے۔ ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں نازل ہوئی تھی پھر لوگوں نے اسے قرآن سے سیکھا، پھر سنت سے سیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق فرمایا تھا کہ ایک شخص ایک نیند سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال دی جائے گی اور اس کا نشان ایک دھبے جتنا باقی رہ جائے گا، پھر وہ ایک نیند سوئے گا اور پھر امانت نکالی جائے گی تو اس کے دل میں آبلے کی طرح اس کا نشان باقی رہ جائے گا، جیسے تم نے کوئی چنگاری اپنے پاؤں پر گرا لی ہو اور اس کی وجہ سے آبلہ پڑ جائے، تم اس میں سوجن دیکھو گے لیکن اندر کچھ نہیں ہو گا اور لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی امانت ادا کرنے والا نہیں ہو گا۔ پھر کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ کس قدر عقلمند، کتنا خوش طبع، کتنا دلاور آدمی ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا اور مجھ پر ایک زمانہ گزر گیا اور میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ تم میں سے کس کے ساتھ میں لین دین کرتا ہوں اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے میرے حق کے ادا کرنے پر مجبور کرتا اور اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کے حاکم لوگ اس کو دباتے ایمانداری پر مجبور کرتے۔ لیکن آج کل تو میں صرف فلاں فلاں لوگوں سے ہی لین دین کرتا ہوں۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6497  
´آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا`
«. . . قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ . . .»
. . . فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6497]

لغوی توضیح:
«جَذْر» اصل۔
«الْوكْت» کالا نقطہ۔
«الْمَجْل» چھالا، جو ہاتھ وغیرہ پر زیادہ کام کی وجہ سے نکل آتا ہے۔
«نَفِطَ» بڑا ہونا، بلند ہونا۔
«مُنْتَبراً» پھولا ہوا، بلند۔

فہم الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی آج ہمیں من و عن مکمل نظر آتی ہے کہ ہر طرف بےایمانی اور بد دیانتی کا بازار گرم ہے، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی عام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں امانت و دیانت بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ امانت دار آج بھی موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر، اکثریت بےایمانوں کی ہی ہے۔ «العياذ بالله»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4053  
´امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔

(2)
سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔

(3)
آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔
حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے۔

(4)
غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔

(5)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4053   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2179  
´امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی،
اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخود قرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے،
اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (2156) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔

3؎:
یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا،
گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی،
کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2179   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7086  
7086. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو احادیث بیان کی تھیں، ان میں سے ایک کا تومیں نے مشاہدہ کر لیا ہے اور دوسری کا انتظار ہے۔ ہم سے آپ نے بیان کیا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی تھی، پھر انہوں نے اسے قرآن سے سیکھا، اس کے بعد سنت سے اس کی حقانیت کو معلوم کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہم سے اس (امانت) کے اٹھ جانے کا ذکر کیا اور فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل میں اس کا اثر ابھرے ہوئے آبلے کی طرح رہ جائے گا جس طرح آگ کے انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دیا جائے اور وہ یوں اثر انداز ہوکر ابھرنے والا آبلہ بن جائے جس میں کوئی چیز نہ ہو۔ لوگ خریدو فروخت کریں گےلیکن ان میں کوئی امانت ادا کرنے والا نہیں ہوگا، پھر کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے۔ کسی مرد کے متعلق کہا جائے گا وہ کس قدر عقل مند، خوش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7086]
حدیث حاشیہ:
یہ خیرالقرون کا حال بیان ہو رہا ہے۔
آج کل تو امانت دیانت کا جتنا بھی جنازہ نکل جائے کم ہے۔
کتنے دین کے دعویدار ہیں جو امانت دیات سے بالکل کورے ہیں۔
اس حدیث سے غیرمسلموں کے ساتھ لین دین کرنا بھی ثابت ہوا بشرطیکہ کسی خطرے کا ڈر نہ ہو۔
حذیفہ بن یمان سنہ 35 ھ میں مدائن میں فوت ہوئے، شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے چالیس روز بعد آپ کی وفات ہوئی۔
(رضي اللہ عنه)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7086   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7086  
7086. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو احادیث بیان کی تھیں، ان میں سے ایک کا تومیں نے مشاہدہ کر لیا ہے اور دوسری کا انتظار ہے۔ ہم سے آپ نے بیان کیا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی تھی، پھر انہوں نے اسے قرآن سے سیکھا، اس کے بعد سنت سے اس کی حقانیت کو معلوم کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہم سے اس (امانت) کے اٹھ جانے کا ذکر کیا اور فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل میں اس کا اثر ابھرے ہوئے آبلے کی طرح رہ جائے گا جس طرح آگ کے انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دیا جائے اور وہ یوں اثر انداز ہوکر ابھرنے والا آبلہ بن جائے جس میں کوئی چیز نہ ہو۔ لوگ خریدو فروخت کریں گےلیکن ان میں کوئی امانت ادا کرنے والا نہیں ہوگا، پھر کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے۔ کسی مرد کے متعلق کہا جائے گا وہ کس قدر عقل مند، خوش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7086]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث علامات نبوت میں سے ہے کیونکہ اس میں لوگوں کے دین خراب ہونے اور آخر زمانہ میں امانت کے رخصت ہو جانے کا امکان ہے۔
حدیث میں بیان کردہ مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ لوگوں کے لوں سے امانت جاتی رہے گی۔
بالآخر اندھیرا ہی اندھیرا باقی رہ جائے گا۔
آج کل تو امانت ودیانت کا خون کیا جا رہا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو دین کے دعوے دار ہونے کے باجود امانت ودیانت سے بالکل کورے ہیں۔
جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ امانت ودیانت کے متعلق کسی پر اعتماد اور بھروسا نہ کیا جا سکے، نیز دھوکے باز لوگوں کی کثرت سے ہو جائے تو انسان کو ایسے لوگوں کی فکر کرنے کے بجائے خود اپنی فکر کرنی چاہیے، البتہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی جاری رہنا چاہیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7086