صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
14. بَابُ التَّعَرُّبِ فِي الْفِتْنَةِ:
باب: فتنہ فساد کے وقت جنگل میں جا رہنا۔
حدیث نمبر: 7087
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، ارْتَدَدْتَ عَلَى عَقِبَيْكَ تَعَرَّبْتَ؟، قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَذِنَ لِي فِي الْبَدْوِ"، وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، خَرَجَ سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ إلَى الرَّبَذَةِ، وَتَزَوَّجَ هُنَاكَ امْرَأَةً، وَوَلَدَتْ لَهُ أَوْلَادًا، فَلَمْ يَزَلْ بِهَا حَتَّى قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِلَيَالٍ، فَنَزَلَ الْمَدِينَةَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ حجاج کے یہاں گئے تو اس نے کہا کہ اے ابن الاکوع! تم گاؤں میں رہنے لگے ہو کیا الٹے پاؤں پھر گئے؟ کہا کہ نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ اور یزید بن ابی عبید سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے تو سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ربذہ چلے گئے اور وہاں ایک عورت سے شادی کر لی اور وہاں ان کے بچے بھی پیدا ہوئے۔ وہ برابر وہیں پر رہے، یہاں تک کہ وفات سے چند دن پہلے مدینہ آ گئے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7087  
7087. حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے پاس گئے تو اس نے کہا: اے ابن اکوع! تم الٹے پاؤں پھر گئےہو، تم نے آبادی سے باہر رہائش رکھ لی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایسا نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ یزید بن ابو عبید نے کہا: جب حضرت عثمان ؓ شہید کر دیے گئے تو حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے زبذہ میں رہائش رکھ لی انہوں نے وہاں ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بچے بھی پیدا ہوئے، وہاں ربذہ میں ہی رہے یہاں تک کہ وفات سے چند دن پہلےمدینہ طیبہ آگئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7087]
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابق ظاہر ہے حضرت سلمہ بن الاکوع نے 80 سال کی عمر میں سنہ74ھ میں وفات پائی (رضي اللہ عنه)
آج بھی فتنوں کا زمانہ ہے ہر جگہ گھر گھر نفاق و شقاق ہے۔
باہمی خلوص کا پتہ نہیں۔
ایسے حالات میں بھی سب سے تنہائی بہتر ہے، کچھ مولانا قسم کے لوگ لوگوں سے بیعت لے کر ان احادیث کو پیش کرتے ہیں، یہ ان کی کم عقلی ہے۔
یہاں بیعت خلاف مراد ہے اور فتنے سے اسلامی ریاست کا شیرازہ بکھر جانا مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7087   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7087  
7087. حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے پاس گئے تو اس نے کہا: اے ابن اکوع! تم الٹے پاؤں پھر گئےہو، تم نے آبادی سے باہر رہائش رکھ لی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایسا نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ یزید بن ابو عبید نے کہا: جب حضرت عثمان ؓ شہید کر دیے گئے تو حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے زبذہ میں رہائش رکھ لی انہوں نے وہاں ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بچے بھی پیدا ہوئے، وہاں ربذہ میں ہی رہے یہاں تک کہ وفات سے چند دن پہلےمدینہ طیبہ آگئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7087]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو شخص ہجرت کر کے کسی شہر میں رہائش اختیار کرتا، اسے وہاں سے منتقل ہو کر دیہات میں جانا جائز نہ تھا اسے مرتد جیسا کہا جاتا تھا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو باعث لعنت قرار دیا ہے۔
(سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5105)
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایسا کرنا جائز تھا جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی تھی، پرفتن دور میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔

آج بھی فتنوں کا دور ہے ہر جگہ گھر گھر میں نفاق ہے۔
خلوص کا دور، دور تک نشان نظر نہیں آتا، ایسے حالات میں تنہائی اختیار کرنا افضل عمل ہے لیکن اگر کوئی شخص لوگوں میں رہتے ہوئے اصلاح کا فریضہ سرانجام دے اور اپنا ایمان بھی قائم رکھ سکے تو ایسے شخص کے لیے آبادی میں رہنا افضل ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7087