صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
15. بَابُ التَّعَوُّذِ مِنَ الْفِتَنِ:
باب: فتنوں سے پناہ مانگنا۔
حدیث نمبر: 7091
وقَالَ لِي خَلِيفَةُ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَمُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا، وَقَالَ: عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ الْفِتَنِ.
اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید و معتمر کے والد نے قتادہ سے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا پھر یہی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی، اس میں بجائے «سوء» کے «شر» کا لفظ ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7091  
7091. حضرت انس ؓ ہی سے ایک اور روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے یہی حدیث نقل کی، اس میں فتنوں کی برائی کے بجائے فتنوں کے شر کا لفظ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7091]
حدیث حاشیہ:
اس روایت کے لانے سے امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ سعید کی روایت میں خیر یا شر شک کے ساتھ مذکور ہے۔
جتنے صحابہ وہاں موجود تھے، سب رونے لگے کیوں کہ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ کثرت سوالات بالکل رنجیدہ ہوگئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رنجیدہ ہونا خدا کے غضب کی نشانی ہے۔
جب کثرت سوالات سے آپ کو غصہ آیا تو خیال کرنا چاہئے کہ جو شخص آپ کے ارشادات کو سن کر اس پر عمل نہ کرے اور دوسرے چیلے چاٹروں کی بات سنے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کس قدر ہوگا اور اس کو خدا کے غضب سے کتنا ڈرنا چاہئے۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اہل ہند کی غفلت اور بے اعتنائی اور حدیث اور قرآن کو چھوڑ دینے کی سزا میں کئی سال سے ان پر طاعون کی بلا نازل ہوئی ہے، معلوم نہیں آئندہ اور کیا عذات اترتا ہے۔
ابھی یہ پارہ ختم نہیں ہوا تھا یعنی یعنی ماہ صفر سنہ 1323ہجری میں پنجاب سے خبر آئی کہ وہاں سخت زلزلہ ہوا اور ہزاروں لاکھوں مکانات تہ خاک ہوگئے اور جو بچ رہے ہیں ان کی بھی حالت تباہ ہے نہ رہنے کو گھر نہ بیٹھنے کا ٹھکانہ۔
غرض اہل ہند کسی طرح خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے اور تعصب اور ناحق شناسی نہیں چھوڑتے، معلوم نہیں آئندہ اور کیا کیا عذاب آنے والے ہیں۔
یا اللہ! سچے مسلمانوں پر رحم کر اور ان کو ان عذابوں سے بچادے آمین یا رب العالمین۔
مولانا وحیدالزماں مرحوم آج سے 75 سال پہلے کی باتیں کر رہے ہیں مگر آج سنہ1398 ہجری میں بھی آندھرا پردیش اور علاقہ میوات میں پانی کے طوفان نے عذابوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7091   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7091  
7091. حضرت انس ؓ ہی سے ایک اور روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے یہی حدیث نقل کی، اس میں فتنوں کی برائی کے بجائے فتنوں کے شر کا لفظ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7091]
حدیث حاشیہ:
ابن بطال نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ احادیث اس شخص کی تردید میں پیش کی ہیں جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے فتنوں کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ ان میں منافقین کی بیخ کنی ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک غیر مرفوع حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
آخر زمانے میں فتنوں کو بُرا خیال نہ کرو کیونکہ یہ منافقین کی تباہی کاباعث ہیں لیکن اس کی سند کمزور اور اس کے راوی مجہول ہیں۔
(فتح الباري: 55/13)
بہرحال فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ ان سے انسان کے ایمان کو خطرہ رہتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7091