صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
17. بَابُ الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ:
باب: اس فتنے کا بیان جو فتنہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار کر اٹھے گا۔
حدیث نمبر: 7097
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِينَةِ لِحَاجَتِهِ، وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ الْحَائِطَ جَلَسْتُ عَلَى بَابِهِ، وَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ الْيَوْمَ بَوَّابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَأْمُرْنِي، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَى حَاجَتَهُ، وَجَلَسَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ لِيَدْخُلَ، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ، فَوَقَفَ، فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ، فَجَاءَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَجَاءَ عَنْ يَسَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ فَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَامْتَلَأَ الْقُفُّ، فَلَمْ يَكُنْ فِيهِ مَجْلِسٌ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَهَا بَلَاءٌ يُصِيبُهُ، فَدَخَلَ فَلَمْ يَجِدْ مَعَهُمْ مَجْلِسًا فَتَحَوَّلَ حَتَّى جَاءَ مُقَابِلَهُمْ عَلَى شَفَةِ الْبِئْرِ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ دَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَجَعَلْتُ أَتَمَنَّى أَخًا لِي وَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يَأْتِيَ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: فَتَأَوَّلْتُ ذَلِكَ قُبُورَهُمُ اجْتَمَعَتْ هَا هُنَا، وَانْفَرَدَ عُثْمَانُ.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شریک بن عبداللہ نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے باغات میں کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور اپنے دل میں کہا کہ آج میں آپ کا دربان بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ آپ اندر چلے گئے اور اپنی حاجت پوری کی۔ پھر آپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول کر انہیں کنوئیں میں لٹکا لیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہیں رہیں، میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا نبی اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ چنانچہ وہ اندر آ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب آ کر انہوں نے بھی اپنی پنڈلیوں کو کھول کر کنوئیں میں لٹکا لیا۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آئے۔ میں نے کہا ٹھہرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں (اور میں نے اندر جا کر آپ سے عرض کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو بھی اجازت دے اور بہشت کی خوشخبری بھی۔ خیر وہ بھی آئے اور اسی کنوئیں کی منڈیر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب بیٹھے اور اپنی پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دیں۔ اور کنوئیں کی منڈیر بھر گئی اور وہاں جگہ نہ رہی۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور میں نے ان سے بھی کہا کہ یہیں رہئیے یہاں تک کہ آپ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگ لوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت دے دو اور اس کے ساتھ ایک آزمائش ہے جو انہیں پہنچے گی۔ پھر وہ بھی داخل ہوئے، ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ چنانچہ وہ گھوم کر ان کے سامنے کنوئیں کے کنارے پر آ گئے پھر انہوں نے اپنی پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں پاؤں لٹکا لیے، پھر میرے دل میں بھائی (غالباً ابوبردہ یا ابورہم) کی تمنا پیدا ہوئی اور میں دعا کرنے لگا کہ وہ بھی آ جاتے، ابن المسیب نے بیان کیا کہ میں نے اس سے ان کی قبروں کی تعبیر لی کہ سب کی قبریں ایک جگہ ہوں گی لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی الگ بقیع غرقد میں ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3710  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3710]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے آپﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا،
نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3710   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7097  
7097. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے باغات میں سے کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب آپ باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور نے (دل میں)کہا: آج میں نبی ﷺ کا چوکیدار بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا، چنانچہ نبی ﷺ تشریف لے گئے، اپنی حاجت کو پورا کیا پھر واپس آکر کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنی دونوں پنڈلیاں کھول کر انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آئے اور اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ میں نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا نبی اللہ! ابوبکر ؓ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ چنانچہ وہ اندر گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7097]
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان پر بلا سے باغیوں کا بلوہ، ان کو گھیر لینا، ان کے ظلم اور تعدی کی شکایتیں کرنا، خلافت سے اتار دینے کی سازشیں کرنا مراد ہے گو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے مگر ان پر یہ آفتیں نہیں آئیں بلکہ ایک نے دھوکے سے ان کو مار ڈالا وہ بھی عین نماز میں۔
باب کا مطلب یہیں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کی نسبت یہ فرمایا کہ ایک بلا یعنی فتنے میں مبتلا ہوں گے اور یہ فتنہ بہت بڑا تھا اسی کی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7097   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7097  
7097. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے باغات میں سے کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب آپ باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور نے (دل میں)کہا: آج میں نبی ﷺ کا چوکیدار بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا، چنانچہ نبی ﷺ تشریف لے گئے، اپنی حاجت کو پورا کیا پھر واپس آکر کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنی دونوں پنڈلیاں کھول کر انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آئے اور اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ میں نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا نبی اللہ! ابوبکر ؓ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ چنانچہ وہ اندر گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7097]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جنت کی بشارت کے ساتھ ایک آزمائش کا بھی ذکر کیا جس سے وہ دوچار ہوں گے۔
واقعی وہ آزمائش سمندر کی طرح موجزن تھی۔
اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوئے تھے لیکن انھیں ایک بدبخت نے نماز فجر کے دوران میں دھوکے سے شہید کیا لیکن انھیں وہ آفتیں نہ آئیں جن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوچار ہونا پڑا،چنانچہ ایک سازشی گروہ نے محض تخریب وانتشار کی خاطر آپ پر گھناؤ نے الزامات لگائے۔
آپ کو اقرباء پروری، بیت المال کے بے جا استعمال کا طعنہ دیا، نیز بئر رومہ جسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود خرید کرمسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا، اس کا پانی آپ کے لیے بند کر دیا۔
مسجد نبوی جس کی توسیع آپ نےاپنی جیب خاص سے کی تھی، اس میں نماز پڑھنے سے آپ کو روک دیا، پھر یہ بھی مطالبہ کیا کہ خود خلافت سے دستبردار ہو جائیں۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا تھا کہ لوگ تم سے خلعت امامت اتارنا چاہیں گے ان کے کہنے پر یہ اقدام نہ کرنا۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3705)

اس سازشی گروہ نے اس حد تک ظلم وزیادتی کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں گھس گئے اور آپ کے اہل خانہ کو بھی زخمی کیا۔
ایسے حالات میں آپ کی مظلومانہ شہادت عمل میں آئی۔
کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔
چنانچہ قدرت نے پھر ان ظالموں سے انتقام لیا جس کی تفصیل تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا فتنہ بہت بڑا فتنہ تھا۔
اس کی کوکھ سے جنگ صفین اور جنگ جمل نے جنم لیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور اس شہادت نے اُمت مسلمہ کو ہلاک کر دیا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7097