صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
18. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 7099
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ:" لَقَدْ نَفَعَنِي اللَّهُ بِكَلِمَةٍ أَيَّامَ الْجَمَلِ، لَمَّا بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ فَارِسًا مَلَّكُوا ابْنَةَ كِسْرَى، قَالَ: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً".
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، کہا ان سے حسن نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ جمل کے زمانہ میں مجھے ایک کلمہ نے فائدہ پہنچایا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ فارس کی سلطنت والوں نے بوران نامی کسریٰ کی بیٹی کو بادشاہ بنا لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس کی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں ہو۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1197  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جو عورت کو اپنا حاکم و فرمانروا بنا لے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1197»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم، إلي كسرٰي و قيصر، حديث:4425.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت کی سربراہی موجب بربادی ہے۔
2. تاریخ اسلام میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔
3.عہد رسالت کے بعد امہات المومنین میں سے بھی کسی کو یہ منصب نہیں سونپا گیا۔
4.جب عورت گھر کی سربراہ نہیں تو ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں کس طرح دی جا سکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1197   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2262  
´جس قوم کی حکمراں عورت ہو گی وہ کامیابی سے ہرگز ہم کنار نہ ہو گی۔`
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک چیز سے بچا لیا جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا تھا، جب کسریٰ ہلاک ہو گیا تو آپ نے پوچھا: ان لوگوں نے کسے خلیفہ بنایا ہے؟ صحابہ نے کہا: اس کی لڑکی کو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنایا، جب عائشہ رضی الله عنہا آئیں یعنی بصرہ کی طرف تو اس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد کی ۱؎، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بچا لیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2262]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے اشارہ جنگ جمل کی طرف ہے جو قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کی خاطر پیش آئی تھی،
عثمان رضی اللہ عنہ جب شہید کردیے گئے اور علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرلی،
پھر طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما مکہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں ان کی ملاقات عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی جو حج کے ارادے سے گئی تھیں،
پھر ان سب کی رائے متفق ہوگئی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی غرض سے بصرہ چلیں،
علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پوری تیاری کے ساتھ پہنچے،
پھر حادثہ جمل پیش آیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2262   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7099  
7099. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایام جمل کے دوران میں ایک ہی بات کے ذریعے سے فائدہ پہنچایا۔ جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جنہوں نے اپنے (حکومتی) معاملات ایک عورت کے حوالے کر دیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7099]
حدیث حاشیہ:
جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل فریق کی سردار تھیں، نتیجہ ناکامی ہوا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کا یہی مطلب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھڑکانے والے چند منافق قسم کے فسادی لوگ تھے۔
جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے مسلمانوں کو آپ میں لڑانا چاہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اپنا جادو چلا کر ان کو سردار فوج بنا لیا اور جنگ جمل واقع ہوئی، جس میں سراسر منافق یہودی صفت لوگوں کا ہاتھ تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7099   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7099  
7099. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایام جمل کے دوران میں ایک ہی بات کے ذریعے سے فائدہ پہنچایا۔ جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جنہوں نے اپنے (حکومتی) معاملات ایک عورت کے حوالے کر دیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7099]
حدیث حاشیہ:

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جنگ جمل بہت بڑا فتنہ تھی۔
اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے۔
اس معرکے کو جمل اس لیے کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک عسکر نامی اونٹ پر سوار تھیں جسے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے لیے مہیا کیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ جنگ امر خلافت سے متعلق نہ تھی بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مطالبہ تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو ان کے کیمپ میں پناہ گزیں تھےاور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف تھا کہ ابھی میری حکومت مستحکم نہیں ہوئی، اس لیے اس معاملے میں کچھ تاخیر کرلی جائے۔

اگرچہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہم نوا تھے لیکن وہ جنگ میں شریک نہ ہوئے کیونکہ اس میں قیادت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث کو بنیاد بنا کر انھوں نے کنارہ کشی اختیار کی۔
اس معاملے میں ان کا موقف کسی حد تک درست اور مبنی برحقیقت تھا کیونکہ انھوں نے ان حالات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ساتھ نہیں دیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7099