صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
18. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 7100
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَرْيَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ الْأَسَدِيُّ، قَالَ: لَمَّا سَارَ طَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَعَائِشَةُ، إِلَى الْبَصْرَةِ بَعَثَ عَلِيٌّ، عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، وَحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ، فَقَدِمَا عَلَيْنَا الْكُوفَةَ، فَصَعِدَا الْمِنْبَرَ، فَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَوْقَ الْمِنْبَرِ فِي أَعْلَاهُ، وَقَامَ عَمَّارٌ أَسْفَلَ مِنَ الْحَسَنِ، فَاجْتَمَعْنَا إِلَيْهِ، فَسَمِعْتُ عَمَّارًا، يَقُولُ:" إِنَّ عَائِشَةَ قَدْ سَارَتْ إِلَى الْبَصْرَةِ، وَاللَّهِ إِنَّهَا لَزَوْجَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ابْتَلَاكُمْ لِيَعْلَمَ إِيَّاهُ تُطِيعُونَ أَمْ هِيَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحصین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابومریم عبداللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہو گئے اور میں نے عمار رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ گئی ہیں اور اللہ کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ رضی اللہ عنہا کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7100  
7100. سیدنا ابو مریم عبداللہ بن زیاد اسدی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدہ عائشہ ؓ بصرے کی طرف روانہ ہوئے تو سیدنا علی ؓ نے سیدنا عمار بن یاسر اور حسن بن علی ؓ کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ سیدنا حسن ؓ منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ پر تھے اورسیدنا عمار بن یاسر ؓ ان سے نیچے کی سیڑھی پر تھے۔ ہم ان نے پاس جمع ہوگئے۔ پھر میں نے سیدنا عمار بن یاسر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ ب‬صرہ کی طرف روانہ ہو چکی ہیں۔ اللہ کی قسم! وہ دنیا اور آخرت میں تمہارے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ذریعے سے تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے کہ تم صرف اس کی اطاعت کرتے ہو یا سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ا کہا مانتے ہو [صحيح بخاري، حديث نمبر:7100]
حدیث حاشیہ:
عمار رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور خلیفہ کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت ہے۔
اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لڑنے کے لیے برانگیختہ کیا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ پیغام سنایا میں لوگوں کو خدا کی یاد دلا کر یہ کہتا ہوں وہ بھاگیں نہیں اگر میں مظلوم ہوں تو اللہ میری مدد کرے گا اور اگر میں ظالم ہوں تو اللہ مجھ کو تباہ کرے گا۔
خدا کی قسم طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے خود مجھ سے بیعت کی پھر بیعت توڑ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لڑنے کے لیے نکلے۔
عبداللہ بن بدیل کہتے ہیں جنگ شروع ہوتے وقت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجاوے کے پاس آیا، میں نے کہا ام المؤمنین جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا، آپ نے خود فرمایا کہ اب علی بن ابی طالب کے ساتھ رہنا اور پھر اب آپ خود اس سے لڑنا چاہتی ہیں یہ کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کچھ جواب نہ دیا۔
آخر ان کے اونٹ کی کونچیں کاٹی گئیں پھر میں اور ان کے بھائی محمد بن ابی بکر دونوں اترے اور کجاوے کو اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو گھر میں زنانہ میں بھیج دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7100   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7100  
7100. سیدنا ابو مریم عبداللہ بن زیاد اسدی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدہ عائشہ ؓ بصرے کی طرف روانہ ہوئے تو سیدنا علی ؓ نے سیدنا عمار بن یاسر اور حسن بن علی ؓ کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ سیدنا حسن ؓ منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ پر تھے اورسیدنا عمار بن یاسر ؓ ان سے نیچے کی سیڑھی پر تھے۔ ہم ان نے پاس جمع ہوگئے۔ پھر میں نے سیدنا عمار بن یاسر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ ب‬صرہ کی طرف روانہ ہو چکی ہیں۔ اللہ کی قسم! وہ دنیا اور آخرت میں تمہارے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ذریعے سے تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے کہ تم صرف اس کی اطاعت کرتے ہو یا سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ا کہا مانتے ہو [صحيح بخاري، حديث نمبر:7100]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس اقدام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے تو خارج نہیں ہوئیں، البتہ اللہ تعالیٰ سے تمھیں ان کے ذریعے سے ایک آزمائش میں ضرور ڈالاہے۔
اس میں اشارہ تھا کہ تم لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اطاعت کرو کیونکہ وہ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اوراصولی طور پر خلیفہ راشد ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگرچہ عظیم شخصیت ہیں اور دنیا وآخرت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن اس عظیم منصب کے باوجود وہ مسلمانوں کی خلیفہ نہیں جو واجب اطاعت ہوں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس موقع پر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ایک پیغام پڑھ کر سنایا:
میں ہر آدمی کو اللہ کاواسطہ دے کر کہتا ہوں جو حق اختیار کرنے کا خوگر ہے وہ ہمارا ساتھ دے۔
اگر میں مظلوم ہوں تو اللہ میری مدد کرے گا اور اگر میں ظالم ہوں تو اللہ مجھے تباہ کرے گا۔
اللہ کی قسم! حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے مجھ سے بیعت کی، پھر اسے توڑ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ لڑائی کے لیے سامنے آگئے ہیں، مجھے نہ تو مال وغیرہ کی طمع ہے اور نہ میں نے کسی معاملے کو تبدیل ہی کیا ہے۔
(فتح الباري: 73/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7100