صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
19. بَابُ إِذَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِقَوْمٍ عَذَابًا:
باب: جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے (تو سب قسم کے لوگ اس میں شامل ہو جاتے ہیں)۔
حدیث نمبر: 7108
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِقَوْمٍ عَذَابًا أَصَابَ الْعَذَابُ مَنْ كَانَ فِيهِمْ، ثُمَّ بُعِثُوا عَلَى أَعْمَالِهِمْ".
ہم سے عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں حمزہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو عذاب ان سب لوگوں پر آتا ہے جو اس قوم میں ہوتے ہیں پھر انہیں ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جائے گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7108  
7108. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو جوان میں موجود ہوتے ہیں ان تمام کو عذاب اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر انہیں قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7108]
حدیث حاشیہ:
آیت قرآنی (وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً)
میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
سچ کہا ہے کہ چنے کے ساتھ گیہوں پس جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7108   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7108  
7108. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو جوان میں موجود ہوتے ہیں ان تمام کو عذاب اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر انہیں قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7108]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے پیش کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ جنگ جمل یا جنگ صفین میں شامل تمام لوگ فریقین کے مخالف یا طرفدار نہیں تھے، یقیناً کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں مجبوراً اس جنگ میں دھکیل دیا گیا، اگر وہ جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہوں تو قیامت کے دن ان کے ساتھ ان کی نیت کے مطابق سلوک کیا جائےگا، مثلاً:
جب کسی گھر کی چھت گرتی ہے یا زلزلہ آتا ہے تو صرف بُرے لوگ ہی اس کی لپیٹ میں نہیں آتے بلکہ نیک لوگ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے:
چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔

بہرحال جب فتنوں کا دور ہوتا ہے تو اس کی لپیٹ میں سب لوگ آ جاتے ہیں، اس لیے انسان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے سے کسی صورت میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
مداہنت اور سستی کرنے اس لیے انسان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے سے کسی صورت میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
مداہنت اور سستی کرنے والا، انھیں دیکھ کر خوش ہونے والا اور فتنوں کو بھڑکانے والا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے ہم سلامتی کے طلبگار ہیں۔
(فتح الباري: 77/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7108