صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
5. بَابُ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ الإِمَارَةَ أَعَانَهُ اللَّهُ:
باب: جسے بن مانگے سرداری ملے تو اللہ اس کی مدد کرے گا۔
حدیث نمبر: 7146
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے حسن نے اور ان سے عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبدالرحمٰن! حکومت کے طالب نہ بننا کیونکہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے اور وہ تمہیں بلا مانگے ملی تو اس میں تمہاری (اللہ کی طرف سے) مدد کی جائے گی اور اگر تم نے قسم کھا لی ہو پھر اس کے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو اور وہ کام کرو جس میں بھلائی ہو۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1173  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ اور اس کام کے خلاف کو بہتر دیکھو تو قسم کا کفارہ ادا کر دو اور جو بہتر ہے وہ کر لو۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ جو کام بہتر ہے اسے کرو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔ اور ابوداؤد کی روایت میں اس طرح ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے کر وہ کام کرو جو بہتر ہے۔ دونوں احادیث کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1173»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب قول الله تعالي: "لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم"، حديث:6622، ومسلم، الأيمان، باب ندب من حلف يمينًا فرأي غير ها خيرًا منها...، حديث:1652، وأبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3277.»
تشریح:
حدیث کے مجموعی الفاظ کفارے کی ادائیگی قسم توڑنے سے پہلے بھی اسی طرح جائز قرار دیتے ہیں جس طرح قسم توڑنے کے بعد۔
جمہور کا یہی مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔
لیکن ابوداود کی مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں کفارے کے بعد ثُـمَّ کے لفظ سے امر خیر کا حکم ہے‘ اور ثُـمَّ کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوسعید ہے۔
شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔
فتح مکہ کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
سجستان اور کابل کے فاتح ہیں۔
بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور یہیں ۵۰ ہجری میں یا اس کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1173   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1529  
´کسی کام پر قسم کھانے کے بعد اس سے بہتر کام جان جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبدالرحمٰن! منصب امارت کا مطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اسی کے سپرد کر دیئے جاؤ گے ۱؎، اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد و توفیق تمہارے شامل ہو گی، اور جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر دوسرے کام کو اس سے بہتر سمجھو تو جسے تم بہتر سمجھتے ہو اسے ہی کرو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1529]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اللہ کی نصرت وتائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1529   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2929  
´حکومت و اقتدار کو طلب کرنا کیسا ہے؟`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہو گی ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2929]
فوائد ومسائل:
انسان کا کوئی معاملہ ایسا نہیں۔
جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن ذمہ داری ہے۔
اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔


حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ) (یوسف:55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے۔
کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں، بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔
کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ) (یوسف:54) آپ آج سے ہمارے ہاں ذی مرتبہ اور امانت دار ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہو سکتا ہے۔
تو اس کو آگے آنا چاہیے۔
ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2929   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7146  
7146. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: اے عبدالرحمن! تم حکومت کا عہدہ مت طلب کرو کیونکہ اگر تمہیں طلب کرنے پر حکومت کی ذمہ داری دی گئی تم اس جے سپرد کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کے بغیر کوئی عہدہ دیا گیا تو اللہ کی طرف سے اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم قسم اٹھاؤ پھر اس کے خلاف میں کوئی بہتری دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور جو بہتر ہے اسے کر گزرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7146]
حدیث حاشیہ:
غلط بات پر خواہ مخواہ اڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
اگر غلط قسم کی صورت ہو تو اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7146   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7146  
7146. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: اے عبدالرحمن! تم حکومت کا عہدہ مت طلب کرو کیونکہ اگر تمہیں طلب کرنے پر حکومت کی ذمہ داری دی گئی تم اس جے سپرد کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کے بغیر کوئی عہدہ دیا گیا تو اللہ کی طرف سے اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم قسم اٹھاؤ پھر اس کے خلاف میں کوئی بہتری دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور جو بہتر ہے اسے کر گزرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7146]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب خود طلب کرکے نہیں لیناچاہیے اور جسے خواہش کے بغیر کوئی حکومتی ذمہ دار مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسے قبول کرے۔
ایسے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی ضرور رہنمائی کرے گا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جو کوئی منصب قضا کا طالب ہوگا اور درخواست کرکے اسے حاصل کرے گا تو اسے کی ذات کے حوالے کردیا جائے گا اور جس شخص کو مجبور کرکے قاضی بنایاجائے تواللہ اس کی رہنمائی کے لیے فرشتہ اتار(مقررکر)
دیتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھیک چلاتا ہے۔
(جامع الترمذی الاحکام حدیث 1323)

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اس کی رہنمائی کرے گا۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الترهيب من الحرص على الإمامة (الأقضية والأحكام)
2. سؤال الإمامة (الأقضية والأحكام)
3. تغيير اليمين لرؤية الأفضل (الأمم السابقة)
4. الكفارة قبل حنث اليمين وبعده (العبادات)
موضوعات 1. حکومت و امارت کے حرص سے خبردار کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
2. عہدے اور منصب کا مطالبہ کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
3. افضل کام کو دیکھ کر قسم کو تبدیل کر لینا (اقوام سابقہ)
4. قسم توڑنے سے پہلے یا بعد کفارہ دینا (عبادات)
Topics 1. Warning for the desire of Government (Legal Orders and Verdicts)
2. Demand for designation (Legal Orders and Verdicts)
3. Changing The Swear For The Better Thing (Ancient Nations)
4. Expiation for breaking the oath (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7146 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
نبی ﷺ نے مجھے فرمایا:
اے عبدالرحمن! تم حکومت کا عہدہ مت طلب کرو کیونکہ اگر تمہیں طلب کرنے پر حکومت کی ذمہ داری دی گئی تم اس جے سپرد کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کے بغیر کوئی عہدہ دیا گیا تو اللہ کی طرف سے اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔
اور اگر تم قسم اٹھاؤ پھر اس کے خلاف میں کوئی بہتری دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور جو بہتر ہے اسے کر گزرو۔
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب خود طلب کرکے نہیں لیناچاہیے اور جسے خواہش کے بغیر کوئی حکومتی ذمہ دار مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسے قبول کرے۔
ایسے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی ضرور رہنمائی کرے گا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جو کوئی منصب قضا کا طالب ہوگا اور درخواست کرکے اسے حاصل کرے گا تو اسے کی ذات کے حوالے کردیا جائے گا اور جس شخص کو مجبور کرکے قاضی بنایاجائے تواللہ اس کی رہنمائی کے لیے فرشتہ اتار(مقررکر)
دیتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھیک چلاتا ہے۔
(جامع الترمذی الاحکام حدیث 1323)

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اس کی رہنمائی کرے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے حسن نے اور ان سے عبدالرحمن بن سمرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اے عبدالرحمن! حکومت کے طالب نہ بننا کیوں کہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو اس میں تمہاری(اللہ کی طرف سے)
مدد کی جائے گی اور اگر تم نے قسم کھالی ہو پھر اس کے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور وہ کام کرو جس میں بھلائی ہو۔
حدیث حاشیہ:
غلط بات پر خواہ مخواہ اڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
اگر غلط قسم کی صورت ہو تو اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-
Rahman bin Samura (RA)
:
The Prophet (ﷺ) said, "O 'Abdur-
Rahman! Do not seek to be a ruler, for if you are given authority on your demand then you will be held responsible for it, but if you are given it without asking (for it)
, then you will be helped (by Allah)
in it. If you ever take an oath to do something and later on you find that something else is better, then you should expiate your oath and do what is better." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
غلط بات پر خواہ مخواہ اڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
اگر غلط قسم کی صورت ہو تو اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7212٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7146٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6613٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7146٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6727٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6883٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7146٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7146١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7146 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × احکام،حکم کی جمع ہے۔
فقہی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے وہ اوامرونواہی احکام کہلاتے ہیں جن کی بجاآوری اس نے اپنے بندوں پر عائد کی ہے لیکن اس مقام پر حکومت اور قضاء کے آداب وشرائط مراد ہیں کیونکہ حاکم کا لفظ خلیفہ اور قاضی ہردورپرمشتمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت نظام عدالت اور نظام حکومت کو بیان فرمایا ہے اور ان کے متعلق ضروری امور کی وضاحت کی ہے۔
واضح رہے کہ دین اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔
ان کا تعلق عقائد وایمانیات سے ہویاعبادات واخلاقیات سے یا دیگر معاملات سے،اسلام ان تمام کی وضاحت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے پھر لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے اورحقداروں کو ان کا حق دلوانے،نیز تعزیر وسزا کے مستحق جرائم پیشہ لوگوں کو سزادینے کے لیے نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اجتماعیت اور مل جل کر رہنے کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کے ساتھ اسلامی مملکت کے سربراہ اور حاکم عدالت بھی تھے۔
اختلافی معاملات آپ کے سامنے آتے اور آپ ان کا فیصلہ فرماتے۔
جن پر زیادتی ہوتی انھیں ان کا حق دلواتے اورحق غصب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سزادیتے۔
اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے حکم دیا ہے:
"آپ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ ہدایات کے مطابق کریں۔
"(المآئدۃ 5/49)
جب یمن کا علاقہ اسلامی اقتدار کے دائرے میں آگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایات دیں کہ وہ اس ذمہ داری کو عدل وانصاف کے ساتھ ادا کرنے کے کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آخرت میں عظیم انعامات اوربلند درجات کی بشارتیں دیں،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ایسےی لوگوں سے نادانستہ طور پر کوئی اجتہادی غلطی ہوجائے تو اس پر انھیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ ا پنی نیک نیتی قاور حق بینی کی کوشش اور محنت کااجروثواب ملے گا اور اس کے مقابلے میں آپ نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب سے ڈرایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
"فیصلہ کرنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں،جن میں سے دو جہنمی اور ایک جنتی ہے:
ایک تو وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے۔
دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کرلی مگر اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا بلکہ فیصلہ کرتے وقت ظلم وزیادتی سے کام لیا،ایسا شخص دوزخی ہے۔
تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا اور نہ حق کے مطابق فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت اور نادانی سے فیصلہ کیا یہ شخص بھی دوزخی ہے۔
"(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2315)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے نظام حکومت کے ایسے اصول مقرر فرمائے جن سے اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو پوری پوری رہنمائی ملتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحکومتی نظام چلانے والے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری کوشش کی کہ حکومت کے متعلق تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پاسداری کی جائے۔
اسی امتیازی خصوصیت کی وجہ سے انھیں خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کہا جاتاہے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوانات اور ان کے تحت پیش کردہ احادیث کو پورے غوروفکر اور انہماک سے پڑھا جائے۔
آپ نے نظام عدالت اور نظام حکومت کے متعلق امت کی بھر پور رہنمائی کی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ چند عنوانات حسب ذیل ہیں:
اسلامی سربراہ اگر خلاف شرع حکم نہ دے تو اس کی بات سننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
۔
حکومتی عہدہ خود نہیں مانگنا چاہیے،اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی۔
۔
جو شخص حکومتی عہدہ طلب کرے گا وہ اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
۔
حکومتی عہدے کی حرص کرنا منع ہے۔
۔
جو شخص لوگوں کو تنگ کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
۔
جو شخص رعایا کی خیر خواہی نہ کرے،اسے سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
چلتے چلتے راستے میں کوئی فیصلہ کرنا۔
۔
قاضی کو غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
۔
جج بننے کی کیا شرائط ہیں؟
۔
حکام اور عُمال کا تنخواہیں لینا۔
۔
فیصلے کرنے والوں کا تحفے قبول کرنا۔
۔
یک طرفہ فیصلہ کرنے کی شرعی حیثیت۔
حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت کا محاسبہ کرتا رہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے اصول وضوابط ہیں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7146