مسند احمد
مسنَد الشَّامِیِّینَ -- 0
465. حَدِیث عَمرِو بنِ عَبَسَةَ
0
حدیث نمبر: 17019
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الدِّمَشْقِيُّ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ صَاحِبَ الْعَقْلِ عَقْلِ الصَّدَقَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ! بِأَيِّ شَيْءٍ تَدَّعِي أَنَّكَ رُبُعُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: إِنِّي كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَرَى النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَلَا أَرَى الْأَوْثَانَ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُ عَنْ رَجُلٍ يُخْبِرُ أَخْبَارَ مَكَّةَ وَيُحَدِّثُ أَحَادِيثَ، فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفٍ، وَإِذَا قَوْمُهُ عَلَيْهِ جُرَءَاءُ، فَتَلَطَّفْتُ لَهُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ:" أَنَا نَبِيُّ اللَّهِ"، فَقُلْتُ: وَمَا نَبِيُّ اللَّهِ؟ قَالَ:" رَسُولُ اللَّهِ"، قَالَ: قُلْتُ: آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: " بِأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ وَلَا يُشْرَكَ بِهِ شَيْءٌ، وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَصِلَةِ الرَّحِمِ"، فَقُلْتُ لَهُ: مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ:" حُرٌّ وَعَبْدٌ، أَوْ عَبْدٌ وَحُرٌّ"، وَإِذَا مَعَهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي قُحَافَةَ، وَبِلَالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، قُلْتُ: إِنِّي مُتَّبِعُكَ، قَالَ:" إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا، وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَالْحَقْ بِي"، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى أَهْلِي وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ حَتَّى جَاءَ رَكَبَةٌ مِنْ يَثْرِبَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الْمَكِّيُّ الَّذِي أَتَاكُمْ؟ قَالُوا: أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ، فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ، وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ، وَتَرَكْنَا النَّاسَ سِرَاعًا . قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ : فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ:" نَعَمْ، أَلَسْتَ أَنْتَ الَّذِي أَتَيْتَنِي بِمَكَّةَ؟" قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُ، قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ، فَلَا تُصَلِّ حَتَّى تَرْتَفِعَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا فَاءَ الْفَيْءُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ حِينَ تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ" . قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَقْرَبُ وَضُوءَهُ ثُمَّ يَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ وَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ فَمِهِ وَخَيَاشِيمِهِ مَعَ الْمَاءِ حِينَ يَنْتَثِرُ، ثُمَّ يَغْسِلُ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِهِ، ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا قَدَمَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ، ثُمَّ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" ، قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ كُلَّهُ فِي مَقَامِهِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ : يَا أَبَا أُمَامَةَ، لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَرَقَّ عَظْمِي، وَاقْتَرَبَ أَجَلِي، وَمَا بِي مِنْ حَاجَةٍ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَى رَسُولِهِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، لَقَدْ سَمِعْتُهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن پوچھا: اے عمرو بن عبسہ! آپ کیسے یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ ربع اسلام ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں، میں خیال کرتا تھا کہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں اور وہ کسی راستے پر نہیں ہیں اور وہ سب بتوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں، میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں بہت سی خبریں بیان کرتا ہے تو میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ چھپ کر رہ رہے ہیں کیونکہ آپ کی قوم آپ پر مسلط تھی۔ پھر میں نے ایک طریقہ اختیار کیا جس کے ذریعہ میں مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اور آپ سے میں عرض کی کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نبی ہوں۔ میں نے عرض کی کہ نبی کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ! مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کو کس چیز کا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ صلہ رحمی کرنا، بتوں کو توڑنا، اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ میں نے کہا کہ اس مسلہ میں آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آزاد اور ایک غلام۔ راوی نے کہا کہ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ جو آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں بھی آپ کی پیروی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس وقت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس وقت تم گھر اپنے جاؤ پھر جب سنو ظاہر (غالب) ہو گیا ہوں تو پھر میرے پاس آ جانا، چنانچہ میں اپنے گھر کی طرف چل دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے اور میں اپنے گھر والوں میں ہی تھا اور لوگوں سے خبریں لیتا رہتا تھا۔ اور پوچھتا رہتا تھا یہاں تک کہ مدینہ والوں سے میری طرف کچھ آدمی آئے تو میں نے ان سے کہا کہ اس طرح کے جو آدمی مدینہ منورہ میں آئے ہیں وہ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں (اسلام قبول کر رہے ہیں) ان کی قوم کے لوگ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ میں مدینہ منورہ آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تم تو وہی ہو جس نے مجھ سے مکہ میں ملاقات کی تھی۔ میں نے کہا:! جی ہاں۔ پھر عرض کیا! اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ سکھایا ہے مجھے اس کی خبر دیجئے میں اس سے جاہل ہوں۔ مجھے نماز کے بارے میں بھی خبر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھو، پھر نماز سے رکے رہو، یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ سورج نکلتا ھے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ پھر نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی فرشتے دیں گے اور حاضر ہوں گے۔ یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابر ہو جائے، پھر نماز سے رکے رہو کیونکہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے، پھر جب سایہ آ جائے تو نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر کئے جائیں گے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھو پھر سورج کے غروب ہونے تک نماز سے رکے رہو کیونکہ یہ شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وضو کے بارے میں بھی کچھ بتایئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو وضو کے پانی سے کلی کرے اور پانی ناک میں ڈالے اور ناک صاف کرے مگر یہ کہ اس کے منہ اور نتھنوں کے سارے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جس طرح اس کے اللہ نے اس کو حکم دیا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ ڈاڑھی کے کناروں کے ساتھ لگ کر پانی کے ساتھ گر جاتے اور پھر اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور اللہ کی حمد و ثناء اس کی بزرگی اور شایان بیان کرے اور اپنے دل کو خالص اللہ کے لئے فارغ کر لے تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عمرو بن عبسہ! دیکھو! (غور کرو!)کیا کہہ رہے ہو ایک ہی جگہ میں آدمی کو اتنا ثواب مل سکتا ہے؟ تو حضرت عمرو بن عبسہ کہنے لگے، اے ابوامامہ! میں بڑی عمر والا بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری ہڈیاں نرم ہو گئی ہیں اور میری موت بظاہر قریب آ گئی ہے تو اب مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں۔ اگر میں اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ، دو یا تین مرتبہ سنتا تو اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا میں نے تو اس حدیث کو سات مرتبہ سے بہت زیادہ بار سنا ہے۔