صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
7. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْحِرْصِ عَلَى الإِمَارَةِ:
باب: حکومت اور سرداری کی حرص کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 7149
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ: أَمِّرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَهُ، فَقَالَ: إِنَّا لَا نُوَلِّي هَذَا مَنْ سَأَلَهُ، وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَيْهِ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے بریدہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کے دو آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمیں کہیں کا حاکم بنا دیجئیے اور دوسرے نے بھی یہی خواہش ظاہر کی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ایسے شخص کو یہ ذمہ داری نہیں سونپتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو اس کا حریص ہو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7149  
7149. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اور میری قوم کے دو آدمی نبی ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کہیں کا حاکم بنادیں۔ دوسرے نے بھی اسی قسم کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہم ایسے شخص کو حکومتی عہدہ نہیں دیتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو ا س کا حریص ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7149]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومتی عہدہ لینے سے بہت ڈرایا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ انسان کی نیت میں خرابی آجائے اور وہ آخرت کی بربادی کاباعث بن جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جسے قاضی بنایاگیا وہ گویا بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔
"(جامع ا لترمذی الاحکام حدیث 1325)

جس آدمی کو چھُری سے ذبح کیا جائے وہ تو دو،تین منٹ میں ختم ہوجائے گا اور اگر کسی کو چھُری کے بغیر ذبح کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کا کام جلدی تمام نہیں ہوگا بلکہ اس کی تکلیف لمبی ہوگی،یعنی یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کی مالا ہے،لیکن اگر اس کی خواہش کی جائے اور اسے حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کی جائے تووہ کس قدر ناپسندیدہ عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:
"ایسے شخص کو عہدے سے محروم رکھاجائے جو خود اس کاطالب اور حریص ہو۔
" الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الترهيب من الحرص على الإمامة (الأقضية والأحكام)
2. سؤال الإمامة (الأقضية والأحكام)
موضوعات 1. حکومت و امارت کے حرص سے خبردار کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
2. عہدے اور منصب کا مطالبہ کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
Topics 1. Warning for the desire of Government (Legal Orders and Verdicts)
2. Demand for designation (Legal Orders and Verdicts)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7149 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اور میری قوم کے دو آدمی نبی ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے۔
ان میں سے ایک نے کہا:
اللہ کے رسول! ہمیں کہیں کا حاکم بنادیں۔
دوسرے نے بھی اسی قسم کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ہم ایسے شخص کو حکومتی عہدہ نہیں دیتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو ا س کا حریص ہو۔
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومتی عہدہ لینے سے بہت ڈرایا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ انسان کی نیت میں خرابی آجائے اور وہ آخرت کی بربادی کاباعث بن جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جسے قاضی بنایاگیا وہ گویا بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔
"(جامع ا لترمذی الاحکام حدیث 1325)

جس آدمی کو چھُری سے ذبح کیا جائے وہ تو دو،تین منٹ میں ختم ہوجائے گا اور اگر کسی کو چھُری کے بغیر ذبح کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کا کام جلدی تمام نہیں ہوگا بلکہ اس کی تکلیف لمبی ہوگی،یعنی یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کی مالا ہے،لیکن اگر اس کی خواہش کی جائے اور اسے حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کی جائے تووہ کس قدر ناپسندیدہ عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:
"ایسے شخص کو عہدے سے محروم رکھاجائے جو خود اس کاطالب اور حریص ہو۔
" حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے بریدہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنی قوم کے دو آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔
ان میں سے ایک نے کہاکہ یا رسول اللہ! ہمیں کہیں کا حاکم بنادیجئے اور دوسرے بھی یہی خواہش ظاہر کی۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم ایسے شخص کو یہ ذمہ داری نہیں سونپتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو اس کا حریص ہو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA)
:
Two men from my tribe and I entered upon the Prophet. One of the two men said to the Prophet, "O Allah's Apostle (ﷺ)! Appoint me as a governor," and so did the second. The Prophet (ﷺ) said, "We do not assign the authority of ruling to those who ask for it, nor to those who are keen to have it." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7215٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7149٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6616٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7149٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6730٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6886٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7149٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7149١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7149 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × احکام،حکم کی جمع ہے۔
فقہی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے وہ اوامرونواہی احکام کہلاتے ہیں جن کی بجاآوری اس نے اپنے بندوں پر عائد کی ہے لیکن اس مقام پر حکومت اور قضاء کے آداب وشرائط مراد ہیں کیونکہ حاکم کا لفظ خلیفہ اور قاضی ہردورپرمشتمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت نظام عدالت اور نظام حکومت کو بیان فرمایا ہے اور ان کے متعلق ضروری امور کی وضاحت کی ہے۔
واضح رہے کہ دین اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔
ان کا تعلق عقائد وایمانیات سے ہویاعبادات واخلاقیات سے یا دیگر معاملات سے،اسلام ان تمام کی وضاحت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے پھر لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے اورحقداروں کو ان کا حق دلوانے،نیز تعزیر وسزا کے مستحق جرائم پیشہ لوگوں کو سزادینے کے لیے نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اجتماعیت اور مل جل کر رہنے کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کے ساتھ اسلامی مملکت کے سربراہ اور حاکم عدالت بھی تھے۔
اختلافی معاملات آپ کے سامنے آتے اور آپ ان کا فیصلہ فرماتے۔
جن پر زیادتی ہوتی انھیں ان کا حق دلواتے اورحق غصب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سزادیتے۔
اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے حکم دیا ہے:
"آپ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ ہدایات کے مطابق کریں۔
"(المآئدۃ 5/49)
جب یمن کا علاقہ اسلامی اقتدار کے دائرے میں آگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایات دیں کہ وہ اس ذمہ داری کو عدل وانصاف کے ساتھ ادا کرنے کے کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آخرت میں عظیم انعامات اوربلند درجات کی بشارتیں دیں،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ایسےی لوگوں سے نادانستہ طور پر کوئی اجتہادی غلطی ہوجائے تو اس پر انھیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ ا پنی نیک نیتی قاور حق بینی کی کوشش اور محنت کااجروثواب ملے گا اور اس کے مقابلے میں آپ نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب سے ڈرایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
"فیصلہ کرنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں،جن میں سے دو جہنمی اور ایک جنتی ہے:
ایک تو وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے۔
دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کرلی مگر اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا بلکہ فیصلہ کرتے وقت ظلم وزیادتی سے کام لیا،ایسا شخص دوزخی ہے۔
تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا اور نہ حق کے مطابق فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت اور نادانی سے فیصلہ کیا یہ شخص بھی دوزخی ہے۔
"(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2315)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے نظام حکومت کے ایسے اصول مقرر فرمائے جن سے اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو پوری پوری رہنمائی ملتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحکومتی نظام چلانے والے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری کوشش کی کہ حکومت کے متعلق تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پاسداری کی جائے۔
اسی امتیازی خصوصیت کی وجہ سے انھیں خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کہا جاتاہے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوانات اور ان کے تحت پیش کردہ احادیث کو پورے غوروفکر اور انہماک سے پڑھا جائے۔
آپ نے نظام عدالت اور نظام حکومت کے متعلق امت کی بھر پور رہنمائی کی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ چند عنوانات حسب ذیل ہیں:
اسلامی سربراہ اگر خلاف شرع حکم نہ دے تو اس کی بات سننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
۔
حکومتی عہدہ خود نہیں مانگنا چاہیے،اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی۔
۔
جو شخص حکومتی عہدہ طلب کرے گا وہ اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
۔
حکومتی عہدے کی حرص کرنا منع ہے۔
۔
جو شخص لوگوں کو تنگ کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
۔
جو شخص رعایا کی خیر خواہی نہ کرے،اسے سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
چلتے چلتے راستے میں کوئی فیصلہ کرنا۔
۔
قاضی کو غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
۔
جج بننے کی کیا شرائط ہیں؟
۔
حکام اور عُمال کا تنخواہیں لینا۔
۔
فیصلے کرنے والوں کا تحفے قبول کرنا۔
۔
یک طرفہ فیصلہ کرنے کی شرعی حیثیت۔
حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت کا محاسبہ کرتا رہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے اصول وضوابط ہیں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7149