صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
23. بَابُ إِجَابَةِ الْحَاكِمِ الدَّعْوَةَ:
باب: حاکم دعوت قبول کر سکتا ہے۔
وَقَدْ أَجَابَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَبْدًا لِلْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ
‏‏‏‏ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ایک غلام کی دعوت قبول کی۔
حدیث نمبر: 7173
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُكُّوا الْعَانِيَ وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، کہا مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابوائل نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیدیوں کو چھڑاؤ اور دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7173  
7173. سیدناابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیدیوں کو رہا کرو اور ضیافت کرنے والےکی دعوت قبول کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7173]
حدیث حاشیہ:

احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم وقت کو دعوت قبول کرنی چاہیے اس کے چھوڑنے پر احادیث میں بہت سخت وعید بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جس شخص نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5177)

ابن بطال لکھتے ہیں کہ حاکم وقت کو ولیمے کی دعوت توضرور قبول کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ دیگر دعوتوں میں اسے اختیار ہے بہتر ہے کہ وہ ایسی قبول نہ کرے جن میں ناجائز اغراض ومقاصد دعوت کرنے والے کے پیش نظر ہوں۔
ہاں اگر خالص دینی بھائی ہے یا کوئی قریبی رشتے دار ہے تو دعوت کے سلسلے میں اس کی ضرورحوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 203/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7173