صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
34. بَابُ الأَلَدِّ الْخَصِمِ:
باب: الدالخصم کا بیان۔
وَهْوَ الدَّائِمُ فِي الْخُصُومَةِ. {لُدًّا} عُوجًا.
‏‏‏‏ یعنی اس شخص کا بیان جو ہمیشہ لوگوں سے لڑتا جھگڑتا رہے «لدا‏» یعنی ٹیڑھی۔
حدیث نمبر: 7188
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض وہ شخص ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2976  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2976]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ اشارہ ہے ارشاد باری:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ﴾ (البقرۃ: 204) کی طرف۔
یعنی لوگوں میں سے بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی بات آپ کو اچھی لگے گی جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ جو اُس کے دل میں ہے گواہ بنا رہا ہوتا ہے،
حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2976   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7188  
7188. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7188]
حدیث حاشیہ:

لڑنا،جھگڑنا، بات بات پر پھڈا ڈالنا اور سینگ پھنسانا کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔
حکومتی معاملات کے لیے ایسا رویہ انتہائی مہلک اور نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے اجتماعیت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے لڑائی جھگڑے کو ترک کر دینے کی بہت فضیلت بیان کی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں ایسے شخص کے لیے جنت میں بہترین مکان کا ضامن ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے لڑائی جھگڑا چھوڑ دیتا ہے۔
(سنن أبي داؤد، الأدب، حدیث: 4800)

بہرحال اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ انسان انتہائی ناپسندیدہ ہے جو ہمیشہ جھگڑتا رہے اوربغض وعناد رکھتے ہوئے حق کوقبول نہ کرے۔
یہ معنی کافر اور مسلمان دونوں کو شامل ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7188