صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
41. بَابُ مُحَاسَبَةِ الإِمَامِ عُمَّالَهُ:
باب: امام کا اپنے عاملوں سے حساب طلب کرنا۔
حدیث نمبر: 7197
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اسْتَعْمَلَ ابْنَ الْأُتَبِيَّةِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ، فَلَمَّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَاسَبَهُ، قَالَ: هَذَا الَّذِي لَكُمْ وَهَذِهِ هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلَّا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَبَيْتِ أُمِّكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا؟، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ رِجَالًا مِنْكُمْ عَلَى أُمُورٍ مِمَّا وَلَّانِي اللَّهُ، فَيَأْتِي أَحَدُكُمْ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ وَهَذِهِ هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَبَيْتِ أُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا، فَوَاللَّهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ هِشَامٌ: بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا جَاءَ اللَّهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَلَا فَلَأَعْرِفَنَّ مَا جَاءَ اللَّهَ رَجُلٌ بِبَعِيرٍ لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بِبَقَرَةٍ لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٍ تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابو حمید ساعدی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن الاتیہ کو بنی سلیم کے صدقہ کی وصول یابی کے لیے عامل بنایا۔ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (وصول یابی کر کے) آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حساب طلب فرمایا تو انہوں نے کہا یہ تو آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھے رہے، اگر تم سچے ہو تو وہاں بھی تمہارے پاس ہدیہ آتا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا۔ آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا، امابعد! میں کچھ لوگوں کو بعض ان کاموں کے لیے عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں، پھر تم میں سے کوئی ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر وہ سچا ہے تو پھر کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اس کا ہدیہ پہنچ جاتا۔ پس اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی اگر اس مال میں سے کوئی چیز لے گا۔ ہشام نے آگے کا مضمون اس طرح بیان کیا کہ بلا حق کے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس طرح لائے گا کہ وہ اس کو اٹھائے ہوئے ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں اسے پہچان لوں گا جو اللہ کے پاس وہ شخص لے کر آئے گا، اونٹ جو آواز نکال رہا ہو گا یا گائے جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی یا بکری جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی اور فرمایا کیا میں نے پہنچا دیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946  
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7197  
7197. سیدنا ابو حمیدی ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ابن قبیہ کو بنو سلیم سے صدقات وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب(وہ صدقات وصول کرکے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے حساب طلب فرمایا۔ اس نے کہا: یہ تو آپ حضرات کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر تو اپنے مان باپ کےگھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، اگر تو سچا ہے تو وہاں بھی نذرانے آتے رہتے؟ اس کے بعد آپ اٹھے اور لوگوں سے خطاب فرمایا: آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا: امابعد! میں تم سے کچھ لوگوں کو ان امور پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں، پھر تم میں سے ایک شخص آتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے اگر وہ شخص سچا ہے تو اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا حتی کہ اس کے پاس نذرانے آئیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے اگر کوئی اس مال میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7197]
حدیث حاشیہ:
جس حکومت کے عمال اور افسران بددیانت ہوں گے اس کا ضرور ایک دن بیڑا غرق ہوگا۔
اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سختی کے ساتھ اس عامل سے باز پرس فرمائی اور اس کی بدیانتی پر آپ نے سخت لفظوں میں اسے ڈانٹا۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7197   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7197  
7197. سیدنا ابو حمیدی ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ابن قبیہ کو بنو سلیم سے صدقات وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب(وہ صدقات وصول کرکے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے حساب طلب فرمایا۔ اس نے کہا: یہ تو آپ حضرات کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر تو اپنے مان باپ کےگھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، اگر تو سچا ہے تو وہاں بھی نذرانے آتے رہتے؟ اس کے بعد آپ اٹھے اور لوگوں سے خطاب فرمایا: آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا: امابعد! میں تم سے کچھ لوگوں کو ان امور پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں، پھر تم میں سے ایک شخص آتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے اگر وہ شخص سچا ہے تو اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا حتی کہ اس کے پاس نذرانے آئیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے اگر کوئی اس مال میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7197]
حدیث حاشیہ:

حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے افسران کو سخت ہدایات جاری کرے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا:
وہاں سے جو کچھ بھی تم میری اجازت کے بغیر لوگے وہ خیانت شمار ہوگا۔
(جامع الترمذي، الأحکام، حدیث: 1335)
پھران کی کڑی نگرانی کرے اور محاسبہ کرتا رہے چنانچہ ابن تسبیہ جب بہت سا مال لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب کے لیے اپنے کارندے بھیجے۔
اس نے پہلے سے ہی مال کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور کہنے لگا یہ تمھارا مال ہے اور یہ میرے نذرانے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملےکی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سخت نوٹس لیا اور بددیانتی پر باز پرس فرمائی۔

بہر حال جس حکومت کے افسران بددیانت ہوں گے اس کا ضرور ایک نہ ایک دن بیڑا غرق ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رشوت لینے والے بددیانت اور خائن افسران سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7197