صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
51. بَابُ الاِسْتِخْلاَفِ:
باب: ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کر جائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 7219
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ خُطْبَةَ عُمَرَ الْآخِرَةَ حِينَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَذَلِكَ الْغَدَ مِنْ يَوْمٍ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَشَهَّدَ وَأَبُو بَكْرٍ صَامِتٌ لَا يَتَكَلَّمُ، قَالَ:" كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَعِيشَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَدْبُرَنَا، يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَكُونَ آخِرَهُمْ، فَإِنْ يَكُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ جَعَلَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ نُورًا تَهْتَدُونَ بِهِ، هَدَى اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَانِيَ اثْنَيْنِ، فَإِنَّهُ أَوْلَى الْمُسْلِمِينَ بِأُمُورِكُمْ، فَقُومُوا، فَبَايِعُوهُ، وَكَانَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ قَدْ بَايَعُوهُ قَبْلَ ذَلِكَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَكَانَتْ بَيْعَةُ الْعَامَّةِ عَلَى الْمِنْبَرِ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لِأَبِي بَكْرٍ يَوْمَئِذٍ: اصْعَدِ الْمِنْبَرَ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَبَايَعَهُ النَّاسُ عَامَّةً.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسرے دن کا ہے۔ انہوں نے کلمہ شہادت پڑھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش تھے اور کچھ نہیں بول رہے تھے، پھر کہا مجھے امید تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر و انتظام کرتے رہیں گے۔ ان کا منشا یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سب لوگوں کے بعد تک زندہ رہیں گے تو اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور (قرآن) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعہ تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے اور اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے ہدایت کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (جو غار ثور میں) دو میں کے دوسرے ہیں، بلا شک وہ تمہارے امور خلافت کے لیے تمام مسلمانوں میں سب سے بہتر ہیں، پس اٹھو اور ان سے بیعت کرو۔ ایک جماعت ان سے پہلے ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت کر چکی تھی، پھر عام لوگوں نے منبر پر بیعت کی۔ زہری نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے، اس دن کہہ رہے تھے، منبر پر چڑھ آئیے۔ چنانچہ وہ اس کا برابر اصرار کرتے رہے، یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھ گئے اور سب لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7219  
7219. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدنا عمر کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ نبی ﷺ کی وفات کے دوسرے دن کا ہے۔ سیدنا عمر نے خطبہ پڑھا جبکہ سیدنا ابو بکر ؓ خاموش تھے اور کوئی بات نہ کرتے تھے پھر سیدنا عمر نے کہا: مجھے امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر و انتظام کرتے رہیں گے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ سیدنا محمد ﷺ ان سب سے آخر میں وفات پائیں گے۔ اگر محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور(قرآن) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعے سے تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے سے سیدنا محمد ﷺ کی رہنمائی فرمائی۔ سیدنا ابو بکر ؓ رسول اللہ کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں بہترین شخص ہیں جو تمہارے امور سر انجام دیں لہذا اٹھو اور ان کی بیعت کرو۔ ان میں سے ایک جماعت پہلے ہی سقیفہ بنو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7219]
حدیث حاشیہ:
سقیفہ کا ترجمہ مولاناوحید الزمان رحمہ اللہ نے منڈو سے کیا ہے۔
عرف عام میں بنو ساعدہ کی چوپالی ٹھیک ہے۔
کانت مکان اجتماعھم للحکومات یعنی وہ پنچائت گھر تھا۔
ابن معین نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصرار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کومنبر پر چڑھانے کے لیے درست تھا تاکہ آپ کا سب سے تعارف ہو جائے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تواضع کی بنا پر چڑھنے سے انکار کررہے تھے۔
آخر چڑھ گئے اور اب بیعت عمومی ہوئی جب کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت خصوصی تھی۔
باب کی مناسبت اس سے نکلی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا وہ تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں۔
شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زور اور اصرار سے ہوئی ورنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بالکل درویش صفت اور منکسر المزاج اور خلافت سے متنفر تھے۔
ہم کہتے ہیں اگر ایسا ہی ہو جب بھی کیا قباحب ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک جس کو خلافت کے لائق سمجھا اس کے لیے زور دیا اور حق پسند لوگوں کا یہی قاعدہ ہوتا ہے۔
اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے غلط ہوتی تو دوسرے صدہا ہزارہا صحابہ جو وہاں موجود تھے وہ کیوں اتفگاق کرتے۔
غرض باجماع صحابہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل اور قابل ٹھہرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7219   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7219  
7219. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدنا عمر کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ نبی ﷺ کی وفات کے دوسرے دن کا ہے۔ سیدنا عمر نے خطبہ پڑھا جبکہ سیدنا ابو بکر ؓ خاموش تھے اور کوئی بات نہ کرتے تھے پھر سیدنا عمر نے کہا: مجھے امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر و انتظام کرتے رہیں گے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ سیدنا محمد ﷺ ان سب سے آخر میں وفات پائیں گے۔ اگر محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور(قرآن) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعے سے تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے سے سیدنا محمد ﷺ کی رہنمائی فرمائی۔ سیدنا ابو بکر ؓ رسول اللہ کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں بہترین شخص ہیں جو تمہارے امور سر انجام دیں لہذا اٹھو اور ان کی بیعت کرو۔ ان میں سے ایک جماعت پہلے ہی سقیفہ بنو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7219]
حدیث حاشیہ:

سقیفہ بنو ساعدہ ایک پنچائیت گھر تھا جس میں خاص لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کی تھی۔
اس کے بعدحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجتماع عام میں اعلان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے لیے موزوں اور مستحق ہیں۔
اس سے انھوں نے حاضرین کو ان سے بیعت کرنے کی ترغیب دلائی، پھر عام لوگوں نے ان کی بیعت کی۔
یہ بیعت ثانیہ تھی جو پہلی بیعت سے عام اور زیادہ مشہور ہے۔

باب سے مناسبت یہ ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر چڑھنے کے لیے کہا اور اس پر اصرارکیا تاکہ آپ کا سب لوگوں سے تعارف ہوجائے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تواضع اور انکسار کی وجہ سے انکار کر رہے تھے۔
(فتح الباري: 258/13)

اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور اور اصرار سے ہوئی اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے لائق نہیں تھے۔
یہ اس لیے بھی غلط ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس سے کیوں اتفاق کرتے؟ بہرحال حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس وقت خلافت کے سب سے زیادہ حق دار اور مناسب تھے اور اس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7219