صحيح البخاري
كِتَاب التَّمَنِّي -- کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْتَ كَذَا وَكَذَا:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں فرمانا کہ کاش ایسا اور ایسا ہوتا۔
حدیث نمبر: 7231
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" أَرِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ، إِذْ سَمِعْنَا صَوْتَ السِّلَاحِ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَحْرُسُكَ، فَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا غَطِيطَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ، قَالَ بِلَالٌ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند نہ آئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مرد میرے لیے آج رات پہرہ دیتا۔ اتنے میں ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بتایا گیا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں یا رسول اللہ! (انہوں نے کہا) میں آپ کے لیے پہرہ دینے آیا ہوں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے یہاں تک کہ ہم نے آپ کے خراٹے کی آواز سنے۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ جب نئے نئے مدینہ آئے تو بحالت بخار حیرانی میں یہ شعر پڑھتے تھے۔ کاش میں جانتا کہ میں ایک رات اس وادی میں گزار سکوں گا۔۔۔ (وادی میں) اور میرے چاروں طرف اذخر اور جیل گھاس ہو گی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی خبر کی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3756  
´سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی، تو آپ نے فرمایا: کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا، ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھناہٹ کی آواز سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم کیوں آئے ہو؟ تو سعد رضی الله عنہ نے کہا: میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3756]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی: اللہ کے رسول اکرمﷺ کے فرمان (رَجُلٌ صَالِحٌ) کے مصداق سعد رضی اللہ عنہ قرار پائے،
یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اکرمﷺ کسی کو (رَجُلٌ صَالِحٌ) قرار دیا،
 (رَضِیَ اللہُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3756   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7231  
7231. حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک رات نیند نہ آئی تو آپ نے فرمایا: کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرے ہاں پہرہ دے۔ اس دوران میں اچانک ہم نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی۔ آپﷺ نے پوچھا:کون صاحب ہیں؟ کہا گیا: اللہ کے رسول! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہوا ہوں، پھر نبیﷺ سو گئے حتیٰ کہ ہم نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلالؓ (جب نئے نئے مدینہ طیبہ آئے تو بخار کی حالت میں انہوں) نے کہا: کاش! میں ایسے میدان میں رات گزاروں جہاں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے نبیﷺ کو اس امر کی خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7231]
حدیث حاشیہ:
مولانا وحید الزماں نے اس شعر کا ترجمہ شعر میں کیوں کیا ہے کاش میں مکہ کی پاؤں ایک رات گرد میرے ہوں جلیل اذ خر نبات یہ پہرہ کا ذکر مدینہ میں شروع شروع آتے وقت کا ہے کیونکہ دشمنوں کا ہر طرف ہجوم تھا۔
آپ کی دعا سعد رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7231   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7231  
7231. حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک رات نیند نہ آئی تو آپ نے فرمایا: کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرے ہاں پہرہ دے۔ اس دوران میں اچانک ہم نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی۔ آپﷺ نے پوچھا:کون صاحب ہیں؟ کہا گیا: اللہ کے رسول! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہوا ہوں، پھر نبیﷺ سو گئے حتیٰ کہ ہم نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلالؓ (جب نئے نئے مدینہ طیبہ آئے تو بخار کی حالت میں انہوں) نے کہا: کاش! میں ایسے میدان میں رات گزاروں جہاں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے نبیﷺ کو اس امر کی خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7231]
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ میں دشمنانِ اسلام کا ہر طرف ہجوم تھا، اس لیے حفاظت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا جاتا تھا کہ کوئی دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچائے۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے پہرا دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
اور اللہ تعالیٰ آپ کولوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
(المآئدة: 5/67)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تقریباً سترہ مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔
اس آیت کے نزول کے بعد پہرا اٹھا دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت 23 سال ہے، ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں، باقی بیس سال کے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینے کی سازشیں تیار ہوئیں، ان میں سے 9 حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے، ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اورغالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر باراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کرکے یا مدد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، خیبر سے واپسی کے وقت، وادی قریٰ، عمرہ قضا اور غزوہ حنین میں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا گیا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت غزوہ حنین کے بعد نازل ہوئی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دینے والوں میں سے تھے۔
جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو پہراختم کردیا گیا اورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔
(فتح الباري: 270/13)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرف لَيْتَ تمنی ہے۔
اس کا تعلق اکثر وبیشتر ناممکنات میں سے ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ممکنات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، چنانچہ مذکورہ احادیث میں پہرا دینا اورمخصوص وادی میں رات گزارنا ممکنات میں سے ہے۔
مؤخر الذکر کی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمنا کی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرے سے متعلق تمنا پوری کردی گئی تھی۔
(فتح الباري: 269/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7231