صحيح البخاري
كِتَاب التَّمَنِّي -- کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں
9. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ:
باب: لفظ ”اگر مگر“ کے استعمال کا جواز۔
حدیث نمبر: 7239
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، قَالَ:" أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ، فَخَرَجَ عُمَرُ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَقَدَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، يَقُولُ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ"، وَقَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا: عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ بِالصَّلَاةِ هَذِهِ السَّاعَةَ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الصَّلَاةَ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَقَدَ النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَمْسَحُ الْمَاءَ عَنْ شِقِّهِ، يَقُولُ: إِنَّهُ لَلْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، وَقَالَ عَمْرٌو، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، لَيْسَ فِيهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَمَّا عَمْرٌو، فَقَال: رَأْسُهُ يَقْطُرُ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: يَمْسَحُ الْمَاءَ عَنْ شِقِّهِ، وَقَالَ عَمْرٌو: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: إِنَّهُ لَلْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہ عمرو بن دینار نے کہا، ہم سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہ ایک رات ایسا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں دیر کی۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! نماز پڑھئے عورتیں اور بچے سونے لگے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے سے) برآمد ہوئے آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا (غسل کر کے باہر تشریف لائے) فرمانے لگے اگر میری امت پر یا یوں فرمایا کہ لوگوں پر دشوار نہ ہوتا۔ سفیان بن عیینہ نے یوں کہا کہ میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں اس وقت (اتنی رات گئے) ان کو یہ نماز پڑھنے کا حکم دیتا۔ اور ابن جریج نے (اسی سند سے سفیان سے، انہوں نے (ابن جریج سے) انہوں نے عطاء سے روایت کی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز (یعنی عشاء کی نماز میں دیر کی۔ عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! عورتیں بچے سو گئے۔ یہ سن کر آپ باہر تشریف لائے، اپنے سر کی ایک جانب سے پانی پونچھ رہے تھے، فرما رہے تھے اس نماز کا (عمدہ) وقت یہی ہے اگر میری امت پر شاق نہ ہو۔ عمرو بن دینار نے اس حدیث میں یوں نقل کیا۔ ہم سے عطاء نے بیان کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا لیکن عمرو نے یوں کہا آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اور ابن جریج کی روایت میں یوں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کے ایک جانب سے پانی پونچھ رہے تھے۔ اور عمرو نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا۔ اور ابن جریج نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو اس نماز کا (افضل) وقت تو یہی ہے۔ اور ابراہیم بن المنذر (امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ) نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے محمد بن مسلم نے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر یہی حدیث نقل کی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 532  
´عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کے استحباب کا بیان۔`
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: عشاء کی امامت کرنے یا تنہا پڑھنے کے لیے کون سا وقت آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو کہتے سنا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے (پھر) سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے، تو عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے: صلاۃ! صلاۃ! تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔ گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ اپنا ہاتھ سر کے ایک حصہ پر رکھے ہوئے تھے۔ راوی (ابن جریج) کہتے ہیں: میں نے عطاء سے جاننا چاہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر کیسے رکھا؟ تو انہوں نے مجھے اشارہ کے ذریعہ بتایا جیسا کہ ابن عباس نے انہیں اشارہ سے بتایا تھا، عطاء نے اپنی انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا، پھر اسے رکھا یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سرے سر کے اگلے حصہ تک پہنچ گئے، پھر انہیں ملا کر سر پر اس طرح گزارتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے کان کے کناروں کو جو چہرہ سے ملا ہوتا ہے چھو لیتے، پھر کنپٹی اور پیشانی کے کناروں پر پھیرتے، نہ دیر کرتے نہ جلدی سوائے اتنی تاخیر کے - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے لیے دشوار نہیں سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ اسی قدر تاخیر سے عشاء پڑھیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 532]
532 ۔ اردو حاشیہ:
لوگ سوگئے۔ اس سونے سے مراد وہ نیند ہے جس سے شعور اور ادراک ختم نہیں ہوتا جسے ہماری زبان میں اونگھ کہتے ہیں، یعنی سخت اونگھ آگئی، بیٹھے، کھڑے اور لیٹے تمام حالتوں میں یہ حالت طاری ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں حقیقی نیند، جس سے ادراک اور انسانی شعور ختم ہو جاتا ہے، مراد لینا درست نہیں لگتا کیونکہ اس میں وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ جس حالت میں بھی آئی ہو۔
➋رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہا کر تشریف لائے تھے اور اپنے سر کے بالوں سے پانی نچوڑ رہے تھے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اشارے سے سمجھایا اور تفصیل سے ہاتھ گزار کر واضح کیا۔ سر کے لمبے بالوں سے اسی طرح پانی نچوڑا جاتا ہے۔
اگر خطرہ نہ ہوتا معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی حضرات کو تاخیر میں مشقت ہو تو نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے ورنہ دیر سے پڑھنا اچھا ہو گا۔ نمازوں کے اوقات کی وسعت دراصل لوگوں کی مجبوریوں کے پیش نظر ہے۔ واللہ اعلم۔
➍سلف صالحین نمازوں کو ان کے اولیٰ اور افضل اوقات میں پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔
➎مفتی پر لازم ہے کہ اپنے فتوے کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرے اور سائل کے لیے ضروری ہے وہ جواب کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنے تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ کر کماحقہ آگے بیان کر سکے۔ (6)امت محمدیہ کی فضیلت ہے کہ نماز عشاء کو صرف اس امت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جیسا کہ سنن ابوداود کی روایت میں ہے: «فإنکم قد فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امة قبلکم» یقیناًً تمہیں اس نماز (عشاء) کے ذریعے سے تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے، تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ [سنن أبی داود، الصلاة، حدیث: 421]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 532