صحيح البخاري
كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ -- کتاب: خبر واحد کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الاحزاب میں) فرمان ”نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو مگر اجازت لے کر جب تم کو کھانے کے لیے بلایا جائے“۔
حدیث نمبر: 7263
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ:" جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ، وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ: قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَذِنَ لِي".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کا ایک کالا غلام سیڑھی کے اوپر (نگرانی کر رہا) تھا میں نے اس سے کہا کہ کہو کہ عمر بن خطاب کھڑا ہے اور اجازت چاہتا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 89  
´خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے`
«. . . وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ . . .»
. . . ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 89]

تشریح:
اس انصاری کا نام عتبان بن مالک تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھبرا کر اس لیے پوچھا کہ ان دنوں مدینہ پر غسان کے بادشاہ کے حملہ کی افواہ گرم تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید غسان کا بادشاہ آ گیا ہے۔ اسی لیے آپ گھبرا کر باہر نکلے پھر انصاری کی خبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اس نے ایسی بے اصل بات کیوں کہی۔ اسی لیے بے ساختہ آپ کی زبان پر نعرہ تکبیر آ گیا۔ باری اس لیے مقرر کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاجر پیشہ تھے اور وہ انصاری بھائی بھی کاروباری تھے۔ اس لیے تاکہ اپنا کام بھی جاری رہے اور علوم نبوی سے بھی محرومی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ طلب معاش کے لیے بھی اہتمام ضروری ہے۔ اس حدیث کی باقی شرح کتاب النکاح میں آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 89   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7263  
7263. سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ﷺ اپنے بالاخانہ میں تشریف فرما تھے اور آپ کا سیاہ غلام سیڑھی کے اوپر تعینات تھا۔ میں نے اس سے کہا: (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کرو: عمر بن خطاب کھڑا اجازت طلب کر رہا ہے چنانچہ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7263]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔
اس تحقیق کے لیے آئے اور ایک دن دربان رباح نامی کی اجازت لینے پر اعتماد کیا۔
اس سے خبر واحد کا حجت کا ہونا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7263   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5201  
´کیا (مل کر) جدا ہو جانے والا دوبارہ ملنے پر سلام کرے؟`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا: اللہ کے رسول! السلام عليكم کیا عمر اندر آ سکتا ہے ۱؎؟۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5201]
فوائد ومسائل:
یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ نے پہلی اور دوسری بار اجازت طلب کی تو نہ ملی پھر طلب کی تو مل گئی۔
اس وقفے میں آپ بار بار السلام علیکم کہتے رہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5201   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7263  
7263. سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ﷺ اپنے بالاخانہ میں تشریف فرما تھے اور آپ کا سیاہ غلام سیڑھی کے اوپر تعینات تھا۔ میں نے اس سے کہا: (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کرو: عمر بن خطاب کھڑا اجازت طلب کر رہا ہے چنانچہ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7263]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خبر سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے۔
تو وہ بہت فکر مند ہوئے۔
اس امر کی تحقیق کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو وہاں سیڑھیوں پر ایک دربان تعینات تھا۔
انھوں نے اس سے کہا:
میرے لیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندرآنے کی اجازت طلب کرو۔
چنانچہ وہ اکیلا تھا اور اس کے اجازت لینے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعتماد کیا اور اس کی اطلاع کو قابل یقین خیال کیا۔
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے۔
بہر حال خبر واحد حجت ہے خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہویا اعمال سے اس قسم کی تفریق خود ساختہ اور بناوٹی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7263