صحيح البخاري
كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ -- کتاب: خبر واحد کے بیان میں
6. بَابُ خَبَرِ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ:
باب: ایک عورت کی خبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 7267
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: أَرَأَيْتَ حَدِيثَ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَاعَدْتُ ابْنَ عُمَرَ؟ قَرِيبًا مِنْ سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَةٍ وَنِصْفٍ فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا، قَالَ: كَانَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ سَعْدٌ، فَذَهَبُوا يَأْكُلُونَ مِنْ لَحْمٍ، فَنَادَتْهُمُ امْرَأَةٌ مِنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَأَمْسَكُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُوا أَوِ اطْعَمُوا فَإِنَّهُ حَلَالٌ، أَوْ قَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ شَكَّ فِيهِ وَلَكِنَّهُ لَيْسَ مِنْ طَعَامِي".
ہم سے محمد بن الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے توبہ بن کیسان العنبری نے بیان کیا کہ مجھ سے شعبی نے کہا کہ تم نے دیکھا امام حسن بصری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی حدیث (مرسلاً) روایت کرتے ہیں۔ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہا لیکن میں نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کے سوا اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی اصحاب جن میں سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے (دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے) لوگوں نے گوشت کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ازواج مطہرات میں سے ایک زوجہ مطہرہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ سب لوگ کھانے سے رک گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «كلوا» فرمایا یا «اطعموا») اس لیے کہ حلال ہے یا فرمایا کہ اس کھانے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ جانور میری خوراک نہیں ہے، مجھ کو اس کے کھانے سے ایک قسم کی نفرت آتی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 405  
´سوسمار (ضب) حلال ہے`
«. . . 297- وبه: أن رجلا نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ما ترى فى الضب؟ فقال: لست بآكله ولا محرمه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کا ضب (سمسار) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 405]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الترمذي 1790 وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي 7/197 ح4320، من حديث مالك به ورواه البخاري 5536، ومسلم 1943، من حديث عبدالله دينار به]
تفقه:
➊ ضب (سمسار/سانڈا) حلال ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے حدیث سابق: 70
➋ اگر کوئی حلال چیز پسند نہ ہو تو اسے کھانا ضروری نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 297   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1790  
´ضب (گوہ) کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کھانے کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپ نے فرمایا: میں نہ تو اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام کہتا ہوں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1790]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ضب کھانا حلال ہے،
بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ نے اسے کھانے سے منع فرمایا ہے،
لیکن یہ ممانعت حرمت کی نہیں بلکہ کراہت کی ہے،
کیوں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
اسے کھاؤ یہ حلال ہے،
لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے،
ضب کا ترجمہ گوہ سانڈا اورسوسمار سے کیا جاتا ہے،
واضح رہے کہ اگران میں سے کوئی قسم گرگٹ کی نسل سے ہے تو وہ حرام ہے،
زہریلا جانور کیچلی دانت والا پنچہ سے شکارکرنے اور اسے پکڑ کر کھانے والے سبھی جانورحرام ہیں۔
ایسے ہی وہ جانور جن کی نجاست وخباثت معروف ہے،
لفظ ضب پر تفصیلی بحث کے لیے سنن ابن ماجہ میں انہی ابواب کا مطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1790   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7267  
7267. سیدنا توبہ عنبری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے امام شعبی نے فرمایا: تم نے دیکھا سیدنا حسن بصری نبی ﷺ سے کتنی احادیث بیان کرتے ہیں جبکہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ دو برس رہا ہوں لیکن میں نے انہیں نبی ﷺ سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے چند حضرات جن میں سیدنا سعد ؓ بھی تھے گوشت کھا رہے تھے کہ امہات المومنین میں سے ایک نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ (یہ سن کر) وہ کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔۔۔۔۔یا فرمایا: اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔لیکن میں اسے نہیں کھاتا کیونکہ میری یہ خوراک نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7267]
حدیث حاشیہ:
شعبی کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ امام حسن بصری جھوٹے ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ امام حسن بصری حدیث بیان کرنے میں بہت جرات کرتے ہیں حالانکہ وہ تابعی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صحابی ہو کر بہت کم حدیث بیان کرتے تھے۔
یہ احتیاط کی بنا پر تھا کہ خدا نخواستہ کوئی غلط حدیث بیان میں آئے اور میں زندہ دوزخی بنوں کیونکر غلط حدیث بیان کروں۔
تشریح:
قرآن وحدیث پر چنگل مارنا اور ان کے خلاف رائے وقیاس سے بچنا بنیاد ایمان ہے۔
سب سے پہلے رائے قیاس پر عمل کرنے اور نصر صریح کو رد کرنے والا ابلیس ہے۔
قرآن مجید کی صریح آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے منکر کی سزا یہی ہے کہ وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنا رہا ہے۔
ایک عورت ذات نے گوشت کے بارے میں بتلایا کہ وہ سانڈے کا گوشت ہے۔
اس کی خبر کو سب نے تسلیم کیا۔
اسی سے عورت کی خبر بھی قبول کی جائے گی بشر طیکہ وہ ثقہ ہو۔
اسی سے خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہوا جو لوگ خبر واحد کو حجت نہیں مانتے ان کا مسلک صحیح نہیں ہے جملہ احادیث کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔
والحمد للہ اولاً وآخراً یہ باب ختم ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7267   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7267  
7267. سیدنا توبہ عنبری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے امام شعبی نے فرمایا: تم نے دیکھا سیدنا حسن بصری نبی ﷺ سے کتنی احادیث بیان کرتے ہیں جبکہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ دو برس رہا ہوں لیکن میں نے انہیں نبی ﷺ سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے چند حضرات جن میں سیدنا سعد ؓ بھی تھے گوشت کھا رہے تھے کہ امہات المومنین میں سے ایک نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ (یہ سن کر) وہ کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔۔۔۔۔یا فرمایا: اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔لیکن میں اسے نہیں کھاتا کیونکہ میری یہ خوراک نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7267]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدت احتیاط کی وجہ سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے کوئی ایسی بات ہو جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہ فرمائی ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو بیان فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک عورت کے آگاہ کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیے اور اس کی بات پر عمل کیا۔
اس لیے اگر خبر واحد ثقہ راوی سے مروی ہو تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7267