صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7281
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، حَدَّثَنَا أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا، فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، فَقَالُوا: أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"، تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ جَابِرٍ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا اور یزید بن ہارون نے ان کی تعریف کی، کہا ہم سے سعید بن میناء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (جبرائیل و میکائیل) اور آپ سوئے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ سوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ان صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک مثال ہے پس ان کی مثال بیان کرو۔ تو ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ سو رہے ہیں، دوسرے نے کہا کہ آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا، پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو گیا اور دستر خوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دستر خوان سے کھانا نہیں کھایا، پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ان کے لیے تفسیر کر دو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ بعض نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں لیکن بعض نے کہا کہ آنکھیں گو سو رہی ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اور برے لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ محمد بن عبادہ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی لیث سے روایت کیا، انہوں نے خالد بن یزید مصری سے، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے، انہوں نے جابر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس باہر تشریف لائے۔ (پھر یہی حدیث نقل کی اسے ترمذی نے وصل کیا)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 144  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال `
«. . . ‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله يَقُول جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِم فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مثلا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ - [52] - دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يفقهها فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا فالدار الْجنَّة والداعي مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَمن أطَاع مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد أطَاع الله وَمن عصى مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد عصى الله وَمُحَمّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فرق بَين النَّاس. رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے ان فرشتوں نے آپس میں کہا کہ ان تمہارے صاحب (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک مثال ہے اس مثال کو بیان کرو۔ ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا: آپ سو رہے ہیں مثال بیان کرنے سے کیا فائدہ جب کہ سن نہیں سکتے، ان میں سے بعض فرشتوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے (جو کچھ تم بیان کرو گے وہ سمجھ لیں گے)۔ پھر وہ بیان کرنے لگے ان کی ایسی مثال ہے جیسے کسی شخص نے مکان تیار کیا اور لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے دسترخوان چنا یعنی دعوت کا انتظام کیا۔ اور لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ایک شخص کو بھیجا (یہ بلانے والا سب کو دعوت دے رہا ہے) تو جس نے اس بلانے والے کی دعوت منظور کر لی اور اس کے ساتھ ساتھ چلا آیا تو اس کے ساتھ اس مکان میں داخل ہو گا اور چنے ہوئے دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا۔ اور جس نے اس دعوت دینے والے کی بات نہ مانی اور نہ دعوت کو قبول کیا تو وہ نہ مکان ہی میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ دعوت کا کھانا ہی کھا سکتا ہے۔ ان فرشتوں نے کہا: بہت بہترین مثال ہے لیکن اس مثال کی توضیح وتشریخ کر دو تاکہ آپ سمجھ لیں۔ اس پر بعض نے کہا: آپ سو رہے ہیں۔ (کیا سمجھیں گے) دوسرے نے جواب دیا آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے (جو کہو گے آپ صاف صاف سمجھ جائیں گے) تو پھر وہ کہنے لگے وہ مکان تو جنت ہے (اور اس کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے اس نے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ہے کہ آپ بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت منظور کر لی اور آپ کی اطاعت کر لی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور مکان جنت میں داخل ہو گا۔ اور وہاں کی نعمتوں کو کھائے گا) اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، نہ وہ جنت میں داخل ہو گا اور نہ وہاں کی نعمتوں کو کھا سکتا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے اور تیز کرنے والے ہیں۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 144]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 7281]

فقہ الحدیث
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا اصل میں قرآن مجید پر عمل کرنا ہی ہے۔
➋ انبیاء اور رسولوں کے خواب سچے ہوتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
➌ نیند کی حالت میں آپ کے دل کے بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا اور نہ آپ عام آدمی کی طرح غفلت کی نیند سوتے تھے۔
↰ یاد رہے کہ آپ کے علاوہ ہر انسان کا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: الترمذی [96 وسنده حسن وقال: هٰذا حديث حسن صحيح]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت فرض ہے۔
➎ لوگوں میں فرق اور جدائی کی وجہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول مانتے ہیں، قرآن و حدیث کو دین اسلام تسلیم کرتے ہیں، وہ ایک امت ہیں اور ان کے مقابلے میں سارے کفار (اور شدید مبتدعین) ایک ملت ہیں۔ حق و باطل کا یہ معرکہ اور اسلام و کفر کا مقابلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کا آنا اور ان کی یہ گفتگو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث بھی وحی ہے۔
➐ اس مثال کی تشریح بیان کریں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سمجھ جائیں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب نہیں تھے۔
➑ اگر کسی شخص میں اچھی خصلت ہو تو اس کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن خوشامد اور چاپلوسی جائز نہیں ہے۔
➒ یہ فرشتے کون تھے؟ ان کے نام معلوم نہیں ہیں۔ دیکھئے: فتح الباری [255/13]
↰ لیکن سنن الترمذی [2860] کی ایک منقطع روایت میں آیا ہے کہ یہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام تھے۔ امام ترمذی یہ روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ حدیث مرسل ہے۔ سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی۔‏‏‏‏ [مطبوعه دارالسلام 642]
◄ معلوم ہوا کہ روایت مذکورہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اس مسئلے میں سکوت بہتر ہے۔

تنبیہ:
جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام کے نام قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ [دیکھئے سورۃ البقرۃ: 98]
◄ اسرافیل علیہ السلام کا نام صحیح مسلم [770، دارالسلام: 1811] میں مذکور ہے، لیکن موت کے فرشتے (ملک الموت) کا نام عزرائیل کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
↰ وہب بن منبہ تابعی سے ایک موقوف (مقطوع) روایت میں یہ نام آیا ہے، لیکن اس کی سند میں محمد بن ابراہیم بن العلاء منکر الحدیث ہے۔ دیکھئے: [العظمة لابي الشيخ الاصبهاني 3؍848 ح394، 3؍900 ح439]
لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
↰ اشعث نامی کسی تبع تابعی سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
ملک الموت علیہ السلام کا نام عزرائیل ہے۔ [كتاب العظمة لابي الشيخ ج3 ص909 ح443 وسنده صحيح]
↰ اشعث تک سند صحیح ہے اور اشعث کے بارے میں شیخ رضاء اللہ بن محمد ادریس مبارکپوری لکھتے ہیں:
وہ اشعث بن اسلم العجلی البصری الربعی ہیں۔ [ايضا مترجما]
↰ اشعث بن اسلم رحمہ اللہ کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ثقة» [تاريخ يحييٰ بن معين، رواية الدوري: 3403، الجرح والتعديل لابن ابي حاتم 2؍269 وسنده صحيح]
↰ حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ [6؍63]
◄ معلوم ہوا کہ عزرائیل کا لفظ تبع تابعین کے دور سے ثابت ہے۔ «والله اعلم»
➓ اگر کسی عذر کی وجہ سے کسی شخص سے بلا واسطہ (ڈائرکٹ) بات کرنا ممکن یا مناسب نہ ہو تو خوش اخلاقی اور اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ذریعے سے اس شخص تک اپنی بات پہنچانا جائز ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 144   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7281  
7281. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: چند فرشتے نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ محو استراحت تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا: اس وقت آپ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا: ان کی صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے وہ مثال بیان کرو، کچھ فرشتوں نے کہا: وہ تو سو رہے ہیں۔ بعض نے کہا: نہیں صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا پھر لوگوں کی دعوت کے لیے کھانا تیار کیا اب ایک شخص کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو جس شخص نے اس بلانے والے کی بات مان لی وہ مکان میں داخل ہوگا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات نہ مانی تو وہ مکان میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھا سکے گا پھرانہوں نے کہا: اس مثال کی وضاحت کرو تاکہ وہ سمجھ لیں۔ بعض کہنے لگے: یہ سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7281]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں اور سنت نبوی ہی بہر حال مقدم ہے۔
امام استاد بزرگ سب کو ترک کیا جاسکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو مقدم رکھنا ہوگا‘ یہی نجات کا راستہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7281   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7281  
7281. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: چند فرشتے نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ محو استراحت تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا: اس وقت آپ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا: ان کی صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے وہ مثال بیان کرو، کچھ فرشتوں نے کہا: وہ تو سو رہے ہیں۔ بعض نے کہا: نہیں صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا پھر لوگوں کی دعوت کے لیے کھانا تیار کیا اب ایک شخص کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو جس شخص نے اس بلانے والے کی بات مان لی وہ مکان میں داخل ہوگا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات نہ مانی تو وہ مکان میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھا سکے گا پھرانہوں نے کہا: اس مثال کی وضاحت کرو تاکہ وہ سمجھ لیں۔ بعض کہنے لگے: یہ سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7281]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں۔
امام، استاد اور بزرگ کی بات کوچھوڑا جا سکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جاسکتا، نیز اس حدیث کا آخری حصہ بڑا معنی خیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کو بُرے سے الگ کرنے والے ہیں، یعنی مومن اور کافر، نیک اوربد، سعادت مند اور بدبخت کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والے ہیں۔
اس موضوع پر ہم کچھ تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال سے اس فرق کی وضاحت پیش خدمت ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جورکوع اورسجود کی صحیح ادائیگی کے بغیر نماز پڑھتا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کے وہ چالیس سال سے اس طرح نماز پڑھا رہا ہے تو آپ نے فرمایا:
اگر تیری اسی حالت پر موت آگئی تو وہ فطرت اسلام کے خلاف ہوگی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 791)
کیونکہ اس کی نماز سنت کے خلاف تھی، اس لیے کہ اس کی موت کو بی فطرت اسلام کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص سنت کے مطابق وضوکرے، پھرسنت کے مطابق صرف دورکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 160)
سنت پر عمل کرنے کی برکت سے صرف دورکعت ادا کرنا سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
سنت اور غیر سنت پر عمل کرنے میں یہی فرق ہے جو مذکورہ بالاحدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7281