صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
71. بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَبَعْدَهَا:
باب: تکبیر ہوتے وقت اور تکبیر کے بعد صفوں کا برابر کرنا۔
حدیث نمبر: 718
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنِّي أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِي".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے عبدالعزیز بن صہیب سے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صفیں سیدھی کر لو۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 814  
´سیدھے کھڑے ہو جاؤ کتنی بار کہنا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 814]
814 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تین دفعہ کہنا مستحب ہے ورنہ یہ ضرورت پر موقوف ہے۔ اگر صفیں درست ہوں تو ایک دفعہ کہنا بھی ضروری نہیں اور اگر صفوں میں خرابی تین دفعہ کہنے کے باوجود باقی رہے تو ظاہر ہے زیادہ مرتبہ کہا جائے گا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کی حالت میں پچھلی صفوں کو دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درست اور قول مختار اسی کو قرار دیا ہے نیز یہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 666/1 تحت حدیث: 418]
اس کی تاویل کر کے اسے اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا مسلک سلف کے خلاف ہے تاہم یہ دیکھنا صرف نماز کی حد تھا (یعنی دوران امامت میں) نہ کہ ہر وقت آپ اپنے پیچھ کا مشاہدہ کرسکتے تھے نیز کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر ایک آنکھ تھی اس سے آپ ہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کے دونوں کندھوں پر سوئی کے ناکے کے برابر دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں۔ بہرحال یہ سب تخمینے اور اندازے ہیں دلیل ان کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 666/1]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 814   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 846  
´فوت شدہ نماز کی جماعت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 846]
846 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً راویٔ کتاب یا ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی، نیز یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 815: 816)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 846   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 718  
718. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: صفوں کو ٹھیک اور درست رکھو، میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:718]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے کہ جس طرح آپ سامنے سے دیکھتے اسی طرح پیچھے مہر نبوت سے آپ دیکھ لیا کرتے تھے۔
صفوں کو درست کرنا اس قدر اہم ہے کہ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا بھی یہی دستور رہا کہ جب تک صف بالکل درست نہ ہوجاتی یہ نماز شروع نہیں کیا کرتے تھے۔
عہد فاروقی میں اس مقصد کے لیے لوگ مقرر تھے جو صف بندی کرائیں، مگر آج کل سب سے زیادہ متروک یہی چیز ہے۔
جس مسجد میں بھی چلے جاؤ صفیں اس قدر ٹیڑھی نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ، اللہ پاک مسلمانوں کو اسوہ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 718   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:718  
718. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: صفوں کو ٹھیک اور درست رکھو، میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:718]
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ صفوں کو درست کرنے میں کوتاہی نہ کیا کرو، تمہاری غفلت کا مجھے علم ہوجاتا ہے کیونکہ میں جس طرح تمہیں آگے سے دیکھتا ہوں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔
چونکہ یہ خرق عادت رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ ہے اور وحی سے ثابت ہے، اس لیے اس پر یقین کرنا چاہیے اور عقلاً ایسا ممتنع بھی نہیں۔
(عمدة القاري: 354/2)
یاد رہے ایسا صرف نماز میں ہوتا ہے تھا جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں وضاحت کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 718