صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7285
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ"، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ: عَنْ اللَّيْثِ عَنَاقًا وَهُوَ أَصَحُّ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھر گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔ ابوبکیر اور عبداللہ بن صالح نے لیث سے «عناقا» (کی بجائے «عقلا») کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث71  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 71]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ کی راہ میں جنگ کرنا مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ ہے جس کا مقصد انسانوں کو غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر صرف اللہ کی عبادت پر قائم کرنا ہے۔

(2)
کسی شخص کے اسلام میں واقعی داخل ہو جانے کا ثبوت تین چیزیں ہیں:

        توحید و رسالت کا اقرار کرنا،
        نماز باقاعدی سے ادا کرنا
      اور اسلام کے مالی حق یعنی زکاۃ کی ادائیگی کرنا۔

(3)
مذکورہ بالا آیات اور حدیث میں اسلام کے صرف تین ارکان کا ذکر کیا گیا ہے۔ (اقرار شہادتین، نماز اور زکاۃ)
اس کی وجہ یہ ہے کہ شہادتین کے بغیر تو اسلام میں داخل ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
نماز ایسی اجتماعی عبادت ہے جو ہر مسلمان پر ہر حال میں ادا کرنا فرض ہے، اس لیے اسے اسلام اور کفر کے درمیان امتیازی علامت قرار دیا گیا ہے اور زکاۃ اگرچہ صرف مال داروں پر فرض ہے لیکن اسلامی حکومت دولت مندوں سے اس کی وصولی اور ناداروں میں اس کی تقسیم کا جس طرح اہتمام کرتی ہے، اس بنا پر یہ بھی مسلم اور غیر مسلم میں واضح امتیاز کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ زکاۃ صرف مسلمانوں سے لی جاتی ہے اور مسلمانوں ہی میں تقسیم کی جاتی ہے۔

(4)
اس حدیث میں دو ارکان (روزہ اور حج)
کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ روزہ ایک پوشیدہ عبادت ہے اگر ایک شخص بغیر روزہ رکھے اپنے آپ کو روزے دار باور کرانا چاہے تو اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔
اور حج اول تو سب مسلمانوں پر فرض ہی نہیں، دوسرے صاحب استطاعت افراد پر بھی زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔
علاوہ ازیں جس قوم کے خلاف جنگ کی جا رہی ہو وہ اگر روزہ رکھنے اور حج کرنے کا اقرار بھی کریں تو اس کے عملی اظہار کے لیے انہیں خاص مہینوں کا انتظار کرنا پڑے گا، لہذا جنگ کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ایسے کاموں سے قائم کرنا حکمت کے منافی ہے۔
واللہ أعلم.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 71   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2606  
´جب تک لوگ لا إلہ الا اللہ کہنے نہ لگ جائیں اس وقت تک مجھے ان سے جہاد کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، مگر کسی حق کے بدلے ۱؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2606]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیا جائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنا دیں،
مثلاً کسی نے کسی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے۔

2؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک آفاقی اورعالمگیر مذہب ہے،
اس کا مقصد دنیا سے تاریکی،
گمرا ہی اورظلم وبربریت کا خاتمہ ہے،
ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنا ہے،
دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگالے اس کی جان مال محفوظ ہے،
البتہ جرائم کے ارتکاب پراس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے،
وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا،
کسی مسلمان کو ناجائز قتل کردینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا،
یہ بھی معلوم ہواکہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہوگا،
اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2606   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2640  
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہ دینے لگ جائیں، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہو گئے، سوائے اس کے حق کے (یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا) اور ان کا حساب اللہ پر ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2640]
فوائد ومسائل:

اسلام بنی نوع انسان کے لئے امن سلامتی کا دین ہے۔
اس کی دعوت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کے اس دنیا میں کائنات کے خالق ومالک کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔
اور نہ کرنے دی جائے۔
اسی اصل بنیاد پرمنکرین سے حسب احوال وظروف قتال کا حکم ہے۔
جس کی معلوم ومعروف شرطیں اور آداب ہیں جواس کتاب الجہاد اور کتب فقہ اسلامی میں محفوظ ہیں۔


اگر کوئی قوم اسلام قبول کرنے پر راضی نہ ہو تو اس کو اہل اسلام کی اطاعت قبول کرنی ہوگی۔
اور جزیہ دینا ہوگا۔


اسلام میں اقرار توحید اور اقرار رسالت محمد رسول اللہ ﷺ کو مستلزم ہے۔
اس کے بغیر توحید کا اقرار قابل قبول نہیں، جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2640   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7285  
7285. . [صحيح بخاري، حديث نمبر:7285]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ زکوٰۃ میں تو بکری کا بچہ تو آ جاتا ہے مگر رسی زکوٰۃ میں نہیں دی جاتی۔
بعضوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محمد بن مسلمہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو وہ ہر شخص سے زکوٰۃ کے جانور باندھنے کے لیے رسی بھی لیتے‘ اسی طرح تبعاً رسی بھی زکوٰۃ میں دی جاتی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7285   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7285  
7285. . [صحيح بخاري، حديث نمبر:7285]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
کچھ لوگ دین اسلام سے برگشتہ ہو کر (پھر کر)
کفر کی طرف لوٹ گئے اور شرائع اسلام کا انکار کر کے بت پرستی اختیار کر لی۔
بعض لوگ ختم نبوت کے منکر ہو گئے اور انھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بطور متبنیٰ مان لیا۔
ان دونوں قسم کے لوگوں سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتال کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔
ان سے جنگ کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ہمنوا تھے۔
ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا تھا۔
ان کا موقف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کو زکاۃ دینا ضروری نہیں۔
ان کے خلاف قتال کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلاف کیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کرتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کرنے کا ارادہ کیا جبکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عموم سے حدیث سے استدلال کیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں بیان ہونے والے "حَّقِ اسلام" کے الفاظ سے بھی اپنے موقف کو مضبوط کیا۔
اس وضاحت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مطمئن ہوگئے۔

واضح رہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ شہادتیں کا اقرار کر لیں، نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں۔
جب وہ یہ کام کرنے لگیں گے توانھوں نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے پھر ان کا (باطنی)
حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہوگا۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 25)
یہ حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد نہ تھی اگر یاد ہوتی تو وہ قیاس کے بجائے اسے پیش کرتے اور نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے سامنے تھی وگرنہ وہ اس کے ہوتے ہوئے حدیث کے عموم سے فائدہ نہ اٹھاتے۔
عین ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن سے یہ فیصلہ کن حدیث مروی ہے بحث وتکرار کے وقت وہاں موجود نہ ہوں کیونکہ اگروہاں موجود ہوتے تو اسے پیش کرکے اس اختلاف کو فوراً ختم کیا جا سکتا تھا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں (عناقا)
کے بجائے لفظ (عقلاً)
کو صحیح قرار دیا ہے کیونکہ زکاۃ میں بکری کا بچہ تو آجاتا ہے مگر رسی زکاۃ میں نہیں دی جاتی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7285