صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7287
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَالنَّاسُ قِيَامٌ وَهِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، فَقُلْتُ مَا لِلنَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ آيَةٌ، قَالَتْ بِرَأْسِهَا: أَنْ نَعَمْ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَرَهُ إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُسْلِمُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ: جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ فَأَجَبْنَاهُ وَآمَنَّا، فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا عَلِمْنَا أَنَّكَ مُوقِنٌ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئی۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا، یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے، دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ (قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، تو وہ کہے گا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال پر کہ) مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 137  
´قبر کا فتنہ`
«. . . ‏‏‏‏عَن أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقول قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذكر فتْنَة الْقَبْر الَّتِي يفتتن فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ هَكَذَا وَزَادَ النَّسَائِيُّ: حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَكَنَتْ - [50] - ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا من فتْنَة الدَّجَّال» . . .»
. . . 0 . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 137]

تخریج:
[صحيح بخاري 1373]،
[سنن النسائي 2064 وسنده صحيح]

فقہ الحدیث:
➊ قبر کا فتنہ مثلاً قبر کا میّت کو بھینچنا اور جھٹکا دینا برحق ہے۔
➋ کفار و منافقین کے لئے عذاب قبر برحق ہے۔ اسی طرح بعض گناہ گار مسلمانوں کو بھی قبر میں عذاب دیا جائے گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے کسی کو معاف فرما کر عذاب قبر سے بچا لے۔
➌ صحابہ کرام چونکہ سب کے سب عادل «كلهم عدول» ہیں، لہٰذا اگر کوئی صحیح و حسن حدیث کے راوی صحابی کا نام معلوم نہ ہو تو یہ مضر نہیں ہے چاہے صحابی سے تابعی کی روایت «عن» سے ہو (بشرطیکہ وہ مدلس نہ ہو اور سماع بھی ثابت ہو) یا تابعی نے سماع کی تصریح کر رکھی ہو۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے۔
➎ جمعہ و عیدین کے علاوہ عام خطبات بھی کھڑے ہو کر دینا بہتر ہے، جیسا کہ احادیث کے عموم سے ظاہر ہے اور عام خطبہ بیٹھ کر دینا بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن ابي داود: 4753 وهو حديث صحيح]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 137   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7287  
7287. سیدنا اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ جب سورج گرہن ہوا تو میں سید ہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئی اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور سیدہ عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے (اب تک) نہیں دیکھا تھا مگر اس جگہ کھڑے ہوئے اسے دیکھا ہے یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ بھی دیکھی ہے۔ میری طرف وحی گئی کہ تمہارا قبروں میں امتحان ہوگا اور دجال کے فتنے کے قریب قریب ہوگا۔ بہرحال مومن۔۔۔۔۔یا مسلمان، میں نہیں جانتی اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا۔۔۔ (وہ قبر میں فرشتوں کے سوال پر)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7287]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلا کہ ہم نے ان کا کہنا مان لیا‘ ان پر ایمان لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7287   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7287  
7287. سیدنا اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ جب سورج گرہن ہوا تو میں سید ہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئی اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور سیدہ عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے (اب تک) نہیں دیکھا تھا مگر اس جگہ کھڑے ہوئے اسے دیکھا ہے یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ بھی دیکھی ہے۔ میری طرف وحی گئی کہ تمہارا قبروں میں امتحان ہوگا اور دجال کے فتنے کے قریب قریب ہوگا۔ بہرحال مومن۔۔۔۔۔یا مسلمان، میں نہیں جانتی اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا۔۔۔ (وہ قبر میں فرشتوں کے سوال پر)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7287]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مومن انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے گا:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کھلی اور واضح نشانیاں لے کر آئے ہم نے انھیں قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، لہذا مومن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، نیز اس حدیث سے زندگی گزارنے کے لیے ایک راستے اور منہج کی رہنمائی ہوتی ہے اور وہ ہے قرآن وحدیث کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، انھیں مان لینا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔
یہ اہل ایمان کی علامت ہے اور اُخروی کامیابی کے لیے ایسا رویہ انتہائی ضروری ہے۔

اس کے برعکس قرآن وحدیث کے دلائل دیکھ کر لوگوں کی باتوں کو ترجیح دینا، اقوال رجال کو ماننا اور بزرگوں کی باتوں کو قابل عمل ٹھہرانا ایک مومن کا طریقہ کار نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا رویہ وہ اختیار کرتا ہے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہو یا کفر ونفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔
بہرحال ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ طریقے اور منہج کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور منافق یا شک میں مبتلا شخص کے طریق کار کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اسی میں ہماری نجات اور اُخروی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی توفیق دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7287