صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
72. بَابُ إِقْبَالِ الإِمَامِ عَلَى النَّاسِ عِنْدَ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ:
باب: صفیں برابر کرتے وقت امام کا لوگوں کی طرف منہ کرنا۔
حدیث نمبر: 719
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ وَتَرَاصُّوا فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي".
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ ہماری طرف کیا اور فرمایا کہ اپنی صفیں برابر کر لو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 814  
´سیدھے کھڑے ہو جاؤ کتنی بار کہنا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 814]
814 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تین دفعہ کہنا مستحب ہے ورنہ یہ ضرورت پر موقوف ہے۔ اگر صفیں درست ہوں تو ایک دفعہ کہنا بھی ضروری نہیں اور اگر صفوں میں خرابی تین دفعہ کہنے کے باوجود باقی رہے تو ظاہر ہے زیادہ مرتبہ کہا جائے گا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کی حالت میں پچھلی صفوں کو دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درست اور قول مختار اسی کو قرار دیا ہے نیز یہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 666/1 تحت حدیث: 418]
اس کی تاویل کر کے اسے اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا مسلک سلف کے خلاف ہے تاہم یہ دیکھنا صرف نماز کی حد تھا (یعنی دوران امامت میں) نہ کہ ہر وقت آپ اپنے پیچھ کا مشاہدہ کرسکتے تھے نیز کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر ایک آنکھ تھی اس سے آپ ہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کے دونوں کندھوں پر سوئی کے ناکے کے برابر دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں۔ بہرحال یہ سب تخمینے اور اندازے ہیں دلیل ان کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 666/1]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 814   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 846  
´فوت شدہ نماز کی جماعت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 846]
846 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً راویٔ کتاب یا ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی، نیز یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 815: 816)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 846   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 719  
719. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو درست کر لو اور باہم مل کر کھڑے ہو جاؤ کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:719]
حدیث حاشیہ:
تراصوا کا مفہوم یہ ہے کہ چوناگچ دیوار کی طرح مل کر کھڑے ہو جاؤ۔
کندھے سے کندھا، قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ ملا لو۔
سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾ (الصف: 4)
اللہ پاک ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں شیشہ پلائی ہوئی دیواروں کی طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں۔
جب نماز میں ایسی کیفیت نہیں کرپاتے تو میدان جنگ میں کیا خاک کرسکیں گے۔
آج کل کے اہل اسلام کا یہی حال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 719   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:719  
719. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو درست کر لو اور باہم مل کر کھڑے ہو جاؤ کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:719]
حدیث حاشیہ:
(1)
صف بندی کے متعلق رسول اللہ ﷺ بہت اہتمام فرماتے اور اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی بہت تاکید کرتے تھے۔
اس روایت میں (تراصوا)
کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صف بندی کے وقت اس طرح کھڑے ہونا چاہیے کہ درمیان میں کسی قسم کا کوئی شگاف نہ ہو، نیز اس حدیث سے پتہ چلا کہ تکبیر ہوجانے کے بعد نماز شروع کرنے سے پہلے گفتگو کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ نماز کی مصلحت سے متعلق ہو۔
(فتح الباري: 270/1) (2)
بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نمازیوں کی صفیں، آسمان میں فرشتوں کی صفوں کے مقابل ہوتی ہیں، اس لیے صف بندی کا خصوصی اہتمام کیا گیا اور اچھی طرح مل کر کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ فرشتوں کے ساتھ پوری پوری مشابہت ہوجائے۔
(3)
ایک رویت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نماز کے وقت صفوں کو پیوست کرو،قریب قریب ہوجاؤاور اپنی گردنوں کو برابر کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں دیکھتا ہوں کہ شیطان بکری کے بچے کی طرح تمہاری صفوں کےشگافوں میں گھس آتا ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 667)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 719