صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
28. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ} {وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ شوریٰ میں) فرمانا ”مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے“ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) فرمان ”اے پیغمبر! ان سے کاموں میں مشورہ لے“۔
حدیث نمبر: 7370
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ الْغَسَّانِيُّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا تُشِيرُونَ عَلَيَّ فِي قَوْمٍ يَسُبُّونَ أَهْلِي مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَعَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: لَمَّا أُخْبِرَتْ عَائِشَةُ بِالْأَمْرِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَنْطَلِقَ إِلَى أَهْلِي، فَأَذِنَ لَهَا وَأَرْسَلَ مَعَهَا الْغُلَامَ، وَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ.
ہم سے محمد بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں مجھے کوئی بری بات کبھی نہیں معلوم ہوئی۔ عروہ سے روایت ہے، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب اس واقعہ کا علم ہوا (کہ کچھ لوگ انہیں بدنام کر رہے ہیں) تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! کیا مجھے آپ اپنے والد کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور ان کے ساتھ غلام کو بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا «سبحانك ما يكون لنا أن نتكلم بهذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سبحانك هذا بهتان عظيم‏.‏» تیری ذات پاک ہے، اے اللہ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی باتیں کریں تیری ذات پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 785  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 785]
785۔ اردو حاشیہ:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بھی آئے، کیونکہ قرآن میں ہے: «فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [النحل۔ 98/16]
اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» اور «اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ «اعوذ بالسمع العليم» نہیں ہے، یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے، دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہو گی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے، جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اور اس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 785   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1970  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1970]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیویوں سےمعاملات میں زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مساوات کاسلوک کرنا اور انصاف قائم رکھنا چاہیے۔

(2)
جب ایک چیز کےمستحق ایک سے زیادہ افراد ہوں اور وہ چیز قابل تقسیم نہ ہو تو قرعہ اندازی سےفیصلہ کیا جاتا سکتا ہے۔
قرعہ اندازی شرعاً جائز ہے بشرطیکہ معاملہ قمار (جوئے)
سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1970   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 912  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ پس جس بیوی کے نام کا قرعہ نکلتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سفر ہوتی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 912»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة المرأة لغير زوجها.....، حديث:2593، ومسلم، التوبة، باب في حديث الإفك.....، حديث:2770.»
تشریح:
اس حدیث سے کسی مبہم معاملے کے تصفیے کے لیے قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 912   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3180  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اورجسارت کروں۔

2؎:
صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے،
بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون ومددگار ہے۔

3؎:
اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں (النور: 22)

4؎:
رشتہ والوں،
مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے۔
(النور: 22)

5؎:
کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے،
اللہ بخشنے والا مہربان ہے (النور: 22)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3180   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7370  
7370. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬و اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7370]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ پچھلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7370   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7370  
7370. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬و اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7370]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حدیث افک کو دو طریق سے بیان کیا ہے اور صرف اتنا حصہ بیان فرمایا جس سے مشورہ کی اہمیت پرروشنی پڑتی کیونکہ یہاں واقعے کی تفصیلات بیان کرنا نہیں بلکہ صرف مشورے کی افادیت بتانا مقصود ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا۔
ان میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے محبوب اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے شوہر نامدار تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
ہم تو خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔
انھوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح علیحدگی کا مشورہ نہیں دیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔
انھوں نے مزید یہ کہا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھ لیں وہ زیادہ بہتر بتا سکیں گی۔
مقصود یہ تھا کہ علیحدگی اختیار نہ کریں، مزید تحقیق کر لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات پر عمل کیا لیکن علیحدگی کے اشارے پر توجہ نہ دی کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اشارہ بھی عدم مفارقت کی طرف تھا، البتہ حالات کی سازگاری تک کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میکےجانے کی اجازت دے دی، پھر جب وحی کے ذریعے سے اصل راز کھلا تو اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب تہمت لگانے والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ دیا کہ آپ اس سلسلے میں جو مناسب سمجھیں کر گزریں، ہم آپ کے قول وفعل میں پورے پورے ہم نوا ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر حد قذف جاری فرمائی۔

بہرحال ان روایات سے مشورے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تواس کا حل اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تلاش کرتے۔
اگر اس میں کوئی آیت مل جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے بصورت دیگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔
اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو باہر نکل کر دوسرے مسلمانوں سے سنت کے متعلق سوال کرتے۔
اگر کہیں سے کوئی سراغ نہ ملتا تو اہل اسلام کو دعوت دیتے۔
برسرعام اہل علم سے مشورہ کرتے۔
مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
ان کی مجلس مشاورت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے شراب کی حد کے متعلق مشورہ لیا جیسا کہ کتاب الحدود میں بیان ہوا ہے۔
عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس جنین کی دیت کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے رائے لی جیسا کہ کتاب الدیات میں اس کی صراحت ہے، اسی طرح اہل فارس سے جنگ کرنے کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ان کا مشورہ کتاب الجہاد میں بیان ہوا ہے۔
جب آپ شام کے علاقے میں گئے تو وہاں پہنچنے سے پہلے پتا چلا کہ طاعون کی وبا پھیلی ہے تو آپ نے مہاجرین وانصار اور سرکردہ قریش سے وہاں جانے کے متعلق مشورہ لیا، جس کی تفصیل کتاب الطب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس پہلا مقدمہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیش ہوا کیونکہ انھوں نے جذبات میں آکر ہرمزان کو قتل کر دیا تھا۔
انھیں گمان تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں ہرمزان کا پورا پورا ہاتھ ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ اس کی تفصیل طبقات ابن سعد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح انھوں نے مصاحف لکھنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعتماد میں لیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوانے میں ہم سے بھر پور مشاورت کی۔
(فتح الباري: 418/13)
الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد روایات سے مشورے کی افادیت اور اہمیت بیان کی ہے جو دراصل کتاب الاعتصام ہی کا ایک حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7370