صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
13. بَابُ السُّؤَالِ بِأَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى، وَالاِسْتِعَاذَةِ بِهَا:
باب: اللہ تعالیٰ کے ناموں کے وسیلہ سے مانگنا اور ان کے ذریعہ پناہ چاہنا۔
حدیث نمبر: 7400
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدَبٍ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ" صَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ، فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ".
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے اور ان سے جندب رضی اللہ عنہ نے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا اور فرمایا جس نے نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا تو اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح ابھی نہ کیا ہو تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1162  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا جندب سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید قربان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے نماز سے پہلے ہی اسے ذبح کر دیا ہے وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا اسے «بسم الله» پڑھ کر ذبح کرنا چاہے۔ (بخاری، مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1162»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔
اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔
2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔
اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔
مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔
3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔
داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔
اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔
احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔
پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔
۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7400  
7400. سیدنا جندب ؓ سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن نبی ﷺ کے پاس موجود تھے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اور فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی وہ اس کی جگہ اور قربانی کرے اور جس نے ابھی تک قربانی ذبح نہ کی ہو تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7400]
حدیث حاشیہ:
اللہ کی کبریائی کے ساتھ اس کا نام لینا اس سے مدد چاہنا یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7400   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7400  
7400. سیدنا جندب ؓ سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن نبی ﷺ کے پاس موجود تھے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اور فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی وہ اس کی جگہ اور قربانی کرے اور جس نے ابھی تک قربانی ذبح نہ کی ہو تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7400]
حدیث حاشیہ:

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی ایک بہترین ذریعہ ہے۔
اس کے متعلق حکم ہے کہ اسے ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تاکہ یہ عبادت اورقربانی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے شمار ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ عبادت کرتے وقت کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کیا جائے۔
قربانی کے متعلق خاص حکم ہے:
کہہ دیجئے!میری نماز،میری قربانی،میری زندگی اور اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے۔
" (الأنعام: 162۔
163)

نیز ارشادباری تعالیٰ ہے:
آپ صرف اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔
(الکوثر 2/108)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ان احادیث کو بیان کرنے سے یہی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے وقت اس کے نام کا واسطہ دیا جائے اور اس کے نام سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کی جائے۔
جب اللہ تعالیٰ کا نام اس قدر بابرکت ہے توخود اللہ تبارک وتعالیٰ کس قدرخیروبرکت کا سرچشمہ ہوگا۔
یہ بات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزاج کےخلاف ہے کہ ایک فضول بات ثابت کرنے کے لیے احادیث ذکر کریں کہ اسم مسمی کا عین ہے یا اس کا غیر۔
ہمارے نزدیک نام اور مسمی الگ الگ دو حقیقتیں ہیں تاکہ اس کے متعلق کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو۔
اس تفصیل کے باوجود یہاں نام سے مراد مسمی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7400