صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
22. بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ} ، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} :
باب: (سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”اور اس کا عرش پانی پر تھا“، ”اور وہ عرش عظیم کا رب ہے“۔
حدیث نمبر: 7419
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ يَمِينَ اللَّهِ مَلْأَى لَا يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ؟، فَإِنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْفَيْضُ، أَوِ الْقَبْضُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اسے کوئی خرچ کم نہیں کرتا جو دن و رات وہ کرتا رہتا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب سے زمین و آسمان کو اس نے پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے۔ اس سارے خرچ نے اس میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ اٹھاتا اور جھکاتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 92  
´کچھ صفات الہی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيرْفَع» - [34] - ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يُغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْل والنهار» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، یعنی اس کا خزانہ بھرا ہوا ہے خرچ کرنے سے کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی۔ رات دن برابر خرچ کرتا اور دیتا رہتا ہے، تم نے دیکھا ہے اس نے جس وقت سے زمین آسمان کو پیدا کیا ہے، کس قدر خرچ کیا ہے مگر اس کے ہاتھ (خزانہ) میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، اور اس کا عرش (تخت) پانی پر تھا اور اسی کے ہاتھ میں روزی کی ترازو ہے وہی نیچا اور اونچا کرتا رہتا ہے۔ بخاری مسلم میں اسی طرح ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اور ابن نمیر راوی نے جو امام مسلم کے استاد ہیں یہ لفظ نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے وہ ہمیشہ خرچ کرنے والا ہے اور دینے والا ہے، رات دن میں خرچ کرنے سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تخریج: [صحيح بخاري 4684]،
[صحيح مسلم 2309]

فقہ الحدیث:
➊ ساری کائنات اور ہر چیز کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اگر وہ اپنی مخلوقات کو اپنے پیدا کردہ خزانوں میں سے بے انتہا بخش دے تب بھی اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہوتی۔
➋ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
➌ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ منکرین صفات کا ہاتھ سے قدرت مراد لینا باطل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 92   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث197  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہو گا؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں اللہ کے لیے ہاتھ اور ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بھی ان صفات میں سے ہے جن پر بلا تشبیہ اور بلا تاویل ایمان لانا چاہیے، قرآن مجید میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر متعدد مقامات پر ہے، مثلا:
(دیکھیے سورہ ص: 75)

(2)
اس حدیث میں اللہ کے ایک ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے، عربی میں لفظ یمین ہے جس میں یمن، یعنی برکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے:
(كِلْتَا يَدَيْهِ يَمِيْنٌ) (صحيح مسلم، الامارة، باب فضيلة الامير العادل، حديث: 1827)
 اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں یعنی ایک کو یمین (دایاں، بابرکت)
کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ہاتھ میں برکت نہیں۔
اس کے دونوں ہاتھ ہی بابرکت ہیں۔

(3)
ترازو کو اونچا کرنے اور جھکانے کا مطلب ہے کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا، اور کسی کو (حکمت کی بنا پر)
کم دینا یا کبھی زیادہ دینا اور کبھی کم دینا یا کبھی کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا اور دوسرے کوکوئی اور نعمت زیادہ دینا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ‌ مَعلومٍ﴾  (الحجر: 21)
 ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں (لیکن)
ہم اسے ایک مقرر اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔

(4)
اللہ کے خزانے ختم ہونا تو درکنار ان میں کمی بھی نہیں ہوتی،۔
کیونکہ اسے کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، نہ کوئی محنت کرنا پڑتی ہے۔
بلکہ اس کا ارادہ ہی ہر مخلوق کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمانے کے لیے کافی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ﴾  (یس: 82)
 وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے اتنا فرما دینا کافی ہو جاتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

(5)
جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی، تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے۔
کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَسـَٔلُهُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ كُلَّ يَومٍ هُوَ فى شَأنٍ﴾  (الرحمن: 29)
 سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں، ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 197   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3045  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کر چکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم)۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3045]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،
انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی،
بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں،
جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے (المائدہ: 64)

2؎:
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو تاویل کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تفسیر،
یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے،
اس کی کیفیت بیان کئے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3045   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7419  
7419. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اس میں خرچ کرنا کسی قسم کی کمی نہیں لاتا۔ وہ دن رات سخاوت کرتا رہتا ہے تمہیں کیا معلوم کہ جب سے زمین آسمان کو اس نے پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے؟ اس سخاوت نے اس میں کمی پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے؟ اس سخاوت نے اس میں کمی نہیں کی جو اس کے دائیں ہاتھ میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں فیض یا قبض ہے جسے وہ اونچا اور نیچا کرتا رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7419]
حدیث حاشیہ:
اللہ کے ہر دو ہاتھ ثابت ہیں جیسا اللہ ہے ویسے اس کے ہاتھ ہیں۔
اس کی کیفیت میں کرید کرنا بدعت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7419   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7419  
7419. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اس میں خرچ کرنا کسی قسم کی کمی نہیں لاتا۔ وہ دن رات سخاوت کرتا رہتا ہے تمہیں کیا معلوم کہ جب سے زمین آسمان کو اس نے پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے؟ اس سخاوت نے اس میں کمی پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے؟ اس سخاوت نے اس میں کمی نہیں کی جو اس کے دائیں ہاتھ میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں فیض یا قبض ہے جسے وہ اونچا اور نیچا کرتا رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7419]
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے عرش کا بیان ہے کہ وہ پانی پر تھا۔
قرآن کریم میں ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت بھی اس کا عرش پانی پر تھا۔
یہ پانی کہاں تھا؟ کیا یہ پانی وہی معروف ہے یا کوئی اور مائع قسم کا مادہ تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ بات یقینی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔
عرش اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ فروکش ہوتا ہے جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلق قرآن میں ہے۔
اس کا تخت عظیم الشان تھا۔
(النمل: 27۔
23)


عربی زبان میں گھر کی چھت کے لیے بھی لفظ عرش استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ہے۔
(وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا)
وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔
(البقرة: 259)
گویا عربی لغت میں عرش کے معنی ہیں۔
بادشاہ کا تخت جس پر وہ فروکش ہوتا ہے۔
گھر کی چھت اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے عرش کے دو مفہوم ہیں۔
وہ اللہ ذوالجلال کا محل استوا ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔
وہ تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے بہر حال اللہ تعالیٰ کا عرش بھی دوسری مخلوقات کی طرح اس کا پیدا کیا ہوا ہے اس کے پائے ہیں اسے خاص فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں قیامت کے دن آٹھ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
عرش سب آسمانوں کے اوپر ہے اور ساتوں آسمانوں کو قبے کی طرح گھیرے ہوئے ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں بلکہ خود عرش اپنے پروردگار کا محتاج ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور ہر مخلوق اپنے خالق کی محتاج ہے اور اس سے کسی صورت میں بے نیاز نہیں ہو سکتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7419