صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
82. بَابُ إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلاَةِ:
باب: تکبیر کا واجب ہونا اور نماز کا شروع کرنا۔
حدیث نمبر: 733
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ فَصَلَّى لَنَا قَاعِدًا فَصَلَّيْنَا مَعَهُ قُعُودًا، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ:" إِنَّمَا الْإِمَامُ أَوْ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 88  
´نماز کے بعد کتاب و سنت کی تعلیم دینا `
«مالك عن ابن شهاب عن أنس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الأيمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون.»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے پس آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ پھر آپ نے نمازوں میں سے ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے (وہ) نماز بیٹھ کر پڑھی۔ جب آپ (فارغ ہو کر ہماری طرف) پھرے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ (رکوع سے) اٹھ جائے تو تم (بھی) اٹھ جاؤ۔ جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 88]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 135/1، ح 302، كتاب 8 باب 5 حديث 16، التمهيد 129/6، الاستذكار: 273، أخرجه البخاري 689، أخرجه مسلم 411/79، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشکل کشا نہیں۔۔۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔۔۔
➌ رکوع و سجود اور نماز کے ظاہری افعال میں امام کی اقتدأ کرنا چاہئے إلا یہ کہ تخصیص کی واضح دلیل ہو مثلاً مسبوق کے لئے امام کا سلام پھیرنا واجب الاقتدأ نہیں ہے۔
➎ نماز کے بعد کتاب و سنت کی تعلیم دینا مسنون ہے۔
➎ اگر شرعی عذر نہ ہو تو نماز کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے۔
➏ جب امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہئے۔ بعض علماء اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں لیکن دوسرے علماء اسے منسوخ نہیں سمجھتے۔
◈ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [صحيح مسلم: 413 ترقيم دارالسلام: 928]
◈ ایک دفعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیماری کی وجہ سے بٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگوں نے اپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 326/1 ح 7173 وسنده صحيح، و صححه ابن حجر فى فتح الباري 76/2 تحت ح 689] اس سے معلوم ہوا کہ منسوخ ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
◈ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور مقتدیوں کو حکم دیا کہ بیٹھ کر نماز پڑھو تو انہوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ دیکھئے: [الاوسط لا بن المنذر 206/4، اثر: 4045 وسنده صحيح و صححه الحافظ ابن حجر فى فتح الباري 176/2]
◈ عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کو اسی پر پایا ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھتا تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ [مصنف عبدالرزاق 443/2 ح 4089]
◈ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو لوگ اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ دیکھئے: [مسائل الامام أحمد بن حنبل و اسحاق بن راهويه، روايته اسحاق بن منصور الكوسج: 348، سنن الترمذي: 361]
◈ اہل الحدیث کے ایک گروہ کا یہی قول ہے۔ [الاعتبار فى بيان الناسخ و المنسوخ من الآثار للحازمي ص 111]
➐ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک امام کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور لوگ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہوں تو پھر پہلا امام آ جائے اور بیٹھ کر نماز پڑھائے تو لوگ کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں گے۔ اس خاص جزیئے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
➑ راجح یہی ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد سب «سمع الله لمن حمده ربنا والك الحمد» پڑھیں۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اس کے قائل تھے کہ مقتدی بھی «سمع الله لمن حمده» کہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 253/1 ح 2600 وسنده صحيح]
◈ امام ابن سیرین کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذ قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه: سمع الله لمن حمده» جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو اس کے مقتدی کو بھی «سمع الله لمنن حمده» کہنا چاہئے [سنن الدراقطني 339/1 ح 1270، وسنده حسن لذاته] ۔ یہ روایت موقوفاً بھی حسن ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 1   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 795  
´امام کی اقتداء (پیروی) کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آئے، اور نماز کا وقت آپ پہنچا، جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 795]
795 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں امامت سے سبقت کرنا تو ناجائز ہے لیکن برابری جائز ہے یعنی امام کے ساتھ ساتھ چلنے میں قباحت نہیں۔ یہ ایک احتمال ہے جو درست نہیں۔ جس طرح امام سے سبقت ناجائز ہے اسی طرح اس کی برابری بھی ممنوع ہے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولا تركَعوا حتّى يركعَ……… ولا تسجُدوا حتّى يسجُدَ………» رکوع نہ کرو جب تک امام رکوع نہ کرے ……… اور نہ سجدہ کرو جب تک وہ سجدہ نہ کرے ……… [سنن أبى داود الصلاة حديث: 603]
یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ امام سے نہ سبقت جائز ہے اور نہ اس کی برابری۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 795   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 833  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گر گئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آ گئی، تو آپ نے کچھ نمازیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 833]
833 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیٹھ کر نماز شروع فرمائی تو صحابہ کھڑے تھے پھر نماز میں آپ نے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی بیٹھ گئے۔ [صحیح مسلم الصلاة حدیث: 412]
➋ تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اہل ظاہر نے ان الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے جالس امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو واجب کہا ہے جب کہ اہل علم نے اس روایت کو اس روایت سے منسوخ قرار دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ وہ مجمع عام میں آپ کی آخری نماز ہے۔ بعد والی روایت پہلی روایت کے لیے ناسخ ہے مگر اس میں اشکال ہے کہ بعد والی روایت فعلی ہے جب کہ پہلی روایت قولی ہے۔ قول و فعل کے تعارض کے وقت قول کو ترجیح دی جاتی ہے مگر پہلی روایت سے چونکہ بیٹھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور دوسری روایت سے بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے رہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اس لیے یہ فعل وجوب کا بہرحال ناسخ ہے البتہ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ اگر نماز کی ابتدا بیٹھنے سے ہوئی تو پھر مقتدیوں کو قولی روایت کے مطابق بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہیے لیکن اگر درمیان میں امام بیٹھے ابتدا کھڑے ہونے سے ہوئی ہو تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔ اس طرح دونوں روایات پر مل ہو جائے گا۔ یوں بھی تطبیق دی گئی ہے کہ پہلی روایت کے امر «فصلوا جلوسا» کو استحباب پر محمول کر لیا جائے یعنی بیٹھے امام کے پیچھے بہتر ہے کہ مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن اگر کھڑے ہو کر بھی پڑھ لیں تو جائز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی روایت کو منسوخ کہنے کی بجائے یہ تطیق مناسب ہے تاکہ کوئی روایت عمل سے خالی نہ رہے۔ بہرحال امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی توجیہ و تطبیق راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ بعض لوگوں نے آخری جملے کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جب امام قعدے کے لیے بیٹھے تو تم بھی بیٹھو۔ مگر یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود اس جملے کا صحیح مفہوم نہیں کیونکہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرما کر مقتدیوں کو بٹھانا اس کے خلاف ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم الصلاة حدیث: 412]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 833   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1062  
´مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آپ کے پاس آئے کہ (اسی دوران) نماز کا وقت ہو گیا، (تو آپ نے انہیں نماز پڑھائی) جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے، تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1062]
1062۔ اردو حاشیہ:
➊ جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے «صلُّوا كما رأيتُموني أصلِّي» نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہو کر فرمایا: «إنه لا تتمُّ صلاةٌ لأحدٍ من الناسِ حتّى يتوضأ ……… ثمَّ يقولُ: سمِع اللهُ لمن حمِدَهُ، حتّى يستويَ قائمًا……» حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے ……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے ……… [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 857، و صفة الصلاة، ص: 118] اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔
«رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں اللھم اور واو کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» اور «اللھم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: [صفة صلاة، النبي، ص: 118 للألباني]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1062   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1238  
´امام اس لیے مقرر ہوا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے، تو آپ کے دائیں جانب خراش آ گئی، ہم آپ کی عیادت کے لیے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ہم نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «الله أكبر» کہے، تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده‏» کہے، تو تم لوگ «ربنا ولك الحمد‏» کہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (جحش)
سے مراد ہلکا زخم ہے جس سے صرف جلد متاثر ہوتی ہے۔

(2)
اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ امام صرف (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه‏)
کہے اور مقتدی صرف (رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْد۔
۔
۔)

 کہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امامت کی حالت میں دونوں اذکار پڑھنا ثابت ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 878، 875)
اس لئے تقسیم اذکار والا موقف قوی محسوس نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1238   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 361  
´جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے، آپ کو خراش آ گئی ۱؎ تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر آپ نے ہماری طرف پلٹ کر فرمایا: امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب وہ رکوع کرے، تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد‏» کہو، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 361]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی دائیں پہلو کی جلد چھل گئی جس کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل اور دشوار ہو گیا۔

2؎:
اور یہی راجح قول ہے،
اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے،
اس کے بعد مرض الموت میں آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت کی تو ابو بکر اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھی،
اس لیے بیٹھ کر اقتداء کرنے کی بات منسوخ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 361   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:733  
733. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے تو جسم پر خراشیں آئیں۔ اس وجہ سے آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی تو ہم نے بھی آپ کے ہمراہ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاو، جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:733]
حدیث حاشیہ:
جمہور اہل علم کے نزدیک تکبیر تحریمہ، یعنی آغاز نماز میں اللہ أکبر کہنا نماز کے لیے رکن ہے جبکہ کچھ حضرات اسے صحت نماز کے لیے شرط قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ رکن اور شرط کا مفہوم تقریبا ایک ہی ہے کہ ان کے بغیر مطلوبہ فعل مکمل نہیں ہوتا، البتہ ان دونوں میں اس طرح فرق کیا جاتا ہے کہ رکن کسی چیز کی ماہیت میں داخل ہوتا ہے، جیسے رکوع اور سجدہ وغیرہ جبکہ شرط اس سے خارج ہوتی ہے، جیسے وضو وغیرہ،نیز تکبیر تحریمہ کا اطلاق صرفاللہ أکبر پر ہوگا جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ أکبر کے بجائے اللہ أجل، اعظم یا الرحمٰن أکبر یا کوئی بھی تسبیح وتہلیل وغیرہ کلمات تعظیم بھی کافی ہیں، یعنی لاإله إلااللہ وغیرہ سے بھی کام چل سکتا ہے۔
مؤخر الذکر موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم نماز کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہوکر اللہ اکبر کہو۔
(صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6251)
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلے کی طرف منہ کرتے، اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ أکبر کہتے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 803)
امام بزار ؒ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تواللہ أکبر کہتے۔
اس کے علاوہ مسند امام احمد اور سنن نسائی میں ہے کہ واسع بن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
نماز شروع کرتے وقت اللہ أکبر کہو جیسا کہ طبرانی وغیرہ میں صراحت ہے۔
ان تمام آثاروروایات سے معلو م ہوا کہ نماز کا آغازاللہ أکبر سے کیا جائے، اس کے بجائے دیگر کلمات تعظیم یا تسبیح وتہلیل سے کام نہ چلایا جائے۔
(فتح الباري: 281/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 733