صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
23. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 7430
وَقَالَ خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ إِلَّا الطَّيِّبُ فَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ، وَرَوَاهُ وَرْقَاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ إِلَّا الطَّيِّبُ.
اور خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی خیرات کی اور اللہ تک حلال کمائی ہی کی خیرات پہنچتی ہے، تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کر لیتا ہے اور خیرات کرنے والے کے لیے اسے اس طرح بڑھاتا رہتا ہے جیسے کوئی تم میں سے اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ برابر ہو جاتی ہے۔ اور ورقاء نے اس حدیث کو عبداللہ بن دینار سے روایت کیا، انہوں نے سعید بن یسار سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس میں بھی یہ فقرہ ہے کہ اللہ کی طرف وہی خیرات چڑھتی ہے جو حلال کمائی میں سے ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7430  
7430. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کجھور کے برابر صدقہ کیا جبکہ اللہ تعالیٰ تک پاکیزہ خیرات ہی پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے، پھر وہ اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ یہ حدیث ورقاء نے عبداللہ بن دینار سے انہوں نے سعید بن یسار سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی خیرات چڑھتی ہے جو حلال کمائی سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7430]
حدیث حاشیہ:
ا س کو امام بیہفی نے وصل کیا ہے۔
امام بخاری  کی غرض اس سند کےلانے سے یہ ہے کہ ورقاء اورسلیمان دونوں کی روایت میں اتنا اختلاف ہےکہ ورقاء اپنا شیخ الشیخ سعید بن یسار کوبیا ن کرتا ہےاور سلیمان ابوصالح کو، باقی سب باتوں میں اتفاق ہے کہ اللہ کی طرف پاک چیز ہی جاتی ہے۔
اللہ کےلیے دائیں ہاتھ کا اثبات بھی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7430   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7430  
7430. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کجھور کے برابر صدقہ کیا جبکہ اللہ تعالیٰ تک پاکیزہ خیرات ہی پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے، پھر وہ اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ یہ حدیث ورقاء نے عبداللہ بن دینار سے انہوں نے سعید بن یسار سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی خیرات چڑھتی ہے جو حلال کمائی سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7430]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث پہلے بھی بیان ہو چکی ہے جس کہ الفاظ یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز کو قبول کرتا ہے۔
(صحیح البخاري:
الزکاة:
حدیث: 1410)

اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازتا ہے وہی اوپر چڑھتی ہے۔
اس کی وجہ سے اس میں برکت دی جاتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں کئی گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جملے سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے اور صفت علو سے متصف ہے کیونکہ علو صفت کمال ہے لہٰذا یہ ضروری ہے۔
کہ معنوی طور پر یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہو۔
اللہ تعالیٰ ہی تمام صفات کمال سے متصف ہے۔
عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ عقلی اعتبار سے تین ہی صورتیں ممکن ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اوپر ہوگا یا نیچے یا برابر۔
نیچے اور برابر ہونا ممتنع ہے کیونکہ نیچے ہونے میں معنوی نقص ہےاور اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے اور برابر ہونے سے مخلوق کے ساتھ مماثلت لازم آتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مماثلت کی نفی کی ہے۔
اب صرف صفت علو باقی ہے جو ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے۔

فطرت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے کیونکہ جو بھی انسان زبان سے۔
اے میرے رب کہتا ہے اس کے دل میں اوپر کا تصور موجود ہوتا ہےمحمد طاہر مقدسی بیان کرتے ہیں کہ شیخ ابو جعفر ہمدانی امام الحرمین ابو العالی الجوینی کی مجلس میں حاضر ہوئے۔
جو ان کے استاد بھی ہیں جبکہ امام الحرمین صفت علو کی نفی میں دلائل دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی تھا جب عرش و مکان پیدا نہیں ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ وہیں ہے جہاں کون و مکان اور عرش و فرش کی پیدائش سے پہلے تھا اس پر شیخ ابو جعفر نے اعتراض کیا کہ آپ ہمیں بتائیں ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک داعیہ اور خواہش موجود ہوتی ہے۔
جب بھی کوئی عارف اور زاہد "یااللہ" کہتا ہے تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی جانب ایک خواہش وہ دائیں بائیں نہیں جھانکتا بلکہ اس کی توجہ اوپر کی طرف ہوتی ہے ہم کبھی بھی اس داعیے اور خواہش کو ختم نہیں کر سکتے۔
امام الحرمین نے جب ابو جعفر ہمدانی کی یہ بات سنی تو اپنا سر پیٹنے ہوئے چیخنے لگے اور یہ کہتے ہوئے منیر سے نیچے اتر آئے کہ آج مجھے ہمدانی نے حیران کر دیا ہے یعنی ہمدانی کی بات فطرت کے عین مطابق ہے۔
(شرح العقیدة الطحاویة ص: 370)
بہرحال قرآن کریم احادیث عقل اور فطرت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہے اور صفت علو سے متصف ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7430