صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
حدیث نمبر: 7440
وَقَالَ حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يُحْبَسُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُهِمُّوا بِذَلِكَ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيُرِيحُنَا مِنْ مَكَانِنَا، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ أَنْتَ آدَمُ أَبُو النَّاسِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ لِتَشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، قَالَ: فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، قَالَ: وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ أَكْلَهُ مِنَ الشَّجَرَةِ، وَقَدْ نُهِيَ عَنْهَا وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ سُؤَالَهُ رَبَّهُ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ، قَالَ: فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ ثَلَاثَ كَلِمَاتٍ كَذَبَهُنَّ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا آتَاهُ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَكَلَّمَهُ وَقَرَّبَهُ نَجِيًّا، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ قَتْلَهُ النَّفْسَ وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَرُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، قَالَ: فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَأْتُونِي، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فِي دَارِهِ، فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، فَيَقُولُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ: يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ، قَالَ: فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأُثْنِي عَلَى رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأَخْرُجُ، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، قَالَ قَتَادَةُ وَسَمِعْتُهُ أَيْضًا، يَقُولُ: فَأَخْرُجُ، فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الثَّانِيَةَ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فِي دَارِهِ فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يَقُولُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ، قَالَ: فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأُثْنِي عَلَى رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، قَالَ: ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأَخْرُجُ فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، قَالَ قَتَادَةُ وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الثَّالِثَةَ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فِي دَارِهِ، فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يَقُولُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، قَالَ: فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأُثْنِي عَلَى رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، قَالَ: ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأَخْرُجُ، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، قَالَ قَتَادَةُ وَقَدْ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: فَأَخْرُجُ، فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ حَتَّى مَا يَبْقَى فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ، قَالَ: ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا سورة الإسراء آية 79، قَالَ: وَهَذَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي وُعِدَهُ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
اور حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے حمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن مومنوں کو (گرم میدان میں) روک دیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ غمگین ہو جائیں گے اور (صلاح کر کے) کہیں گے کہ کاش کوئی ہمارے رب سے ہماری شفاعت کرتا کہ ہمیں اس حالت سے نجات ملتی۔ چنانچہ وہ مل کر آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کو جنت میں مقام عطا کیا، آپ کو سجدہ کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں تاکہ ہمیں اس حالت سے نجات دے۔ بیان کیا کہ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں وہ اپنی اس غلطی کو یاد کریں گے جو باوجود رکنے کے درخت کھا لینے کی وجہ سے ان سے ہوئی تھی اور کہیں گے کہ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔ چنانچہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہ فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں اور اپنی اس غلطی کو یاد کریں گے جو بغیر علم کے اللہ رب العزت سے سوال کر کے (اپنے بیٹے کی بخشش کے لیے) انہوں نے کی تھی اور کہیں گے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے خلیل ہیں۔ بیان کیا کہ ہم سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہی عذر کریں گے کہ میں اس لائق نہیں اور وہ ان تین باتوں کو یاد کریں گے جن میں آپ نے بظاہر غلط بیانی کی تھی اور کہیں گے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے بندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توریت دی اور ان سے بات کی اور ان کو نزدیک کر کے ان سے سرگوشی کی۔ بیان کیا کہ پھر لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں اور وہ غلطی یاد کریں گے جو ایک شخص کو قتل کر کے انہوں نے کی تھی۔ (وہ کہیں گے) البتہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں اپنے رب سے اس کے در دولت یعنی عرش معلی پر آنے کے لیے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اس کی اجازت دی جائے گی پھر میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے جب تک چاہے گا اسی حالت میں رہنے دے گا۔ پھر فرمائے گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، جو مانگو گے دیا جائے گا۔ بیان کیا کہ پھر میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی حمد و ثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ بیان کیا کہ پھر میں شفاعت کروں گا۔ چنانچہ میرے لیے حد مقرر کی جائے گی اور میں اس کے مطابق لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پھر میں نکالوں گا اور جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری مرتبہ اپنے رب سے اس کے در دولت کے لیے اجازت چاہوں گا اور مجھے اس کی اجازت دی جائے گی۔ پھر میں اللہ رب العزت کو دیکھتے ہی اس کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے یوں ہی چھوڑے رکھے گا۔ پھر فرمائے گا: اے محمد! سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا شفاعت کرو قبول کی جائے گی، مانگو دیا جائے گا۔ آپ نے بیان کیا کہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی ایسی حمد و ثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا بیان کیا کہ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گا اور میں اس کے مطابق جہنم سے لوگوں کو نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ پھر میں لوگوں کو نکالوں گا اور انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو گا یعنی انہیں ہمیشہ ہی اس میں رہنا ہو گا (یعنی کفار و مشرکین) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا‏» قریب ہے کہ آپ کا رب مقام محمود پر آپ کو بھیجے گا فرمایا کہ یہی وہ مقام محمود ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7440  
7440. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ایمان کو ایک مقام پر روک لیا جائے گا جس کے باعث وہ غمگین اور پریشان ہوں گےاور کہیں گے: کاش ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش پیش کریں تاکہ وہ ہمیں اس پریشانی سے نجات دے۔ چنانچہ وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: آپ سیدنا آدم ہیں۔ تمام لوگوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ پھر جنت میں ٹھہرایا۔ آپ کے لیے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام اشیاء کے نام سیکھائے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس پریشانی سے نجات دے۔ وہ جواب دیں گے: میں تمہاری سفارش کرنے والا نہیں ہوں۔ وہ اپنی خطا یاد کریں گے جو انہوں نے درخت کا پھل کھانے سے متعلق کی تھی۔ حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا۔ وہ کہیں گے: تم نوح ؑ کے پاس جاؤ وہ پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7440]
حدیث حاشیہ:
مقام محمود رفیع الشان درجہ ہے جو خاص ہمارے رسول کریم ﷺ کوعنائت ہوگا۔
ایک روایت میں ہےکہ اس مقام پر اگلے اورپچھلے سب رشک کریں گے۔
روایت میں اوپر اللہ کے گھر کا ذکر آیا ہے۔
گھر سے مراد جنت ہے اضافت تشریف کے لیے ہے جیسے بیت اللہ۔
مصابیح والے نے کہا ترجمہ یوں ہے میں اپنے مالک سےاجازت چاہوں گا جب میں اس کے گھر یعنی جنت میں ہوں۔
یہاں گھر سےمراد خاص وہ مقام ہےاللہ تعالیٰ اس وقت تجلی فرما ہوگا وہ عرش معلیٰ ہے اور عرش کو صحابہ نےخدا کا گھر کہا ہے۔
ایک صحابی کا قول ہے وکان مکان اللہ أعلیٰ و أرفع (وحیدی)
حدیث میں اللہ کے لیے پنڈلی کا ذکر ہے اس طرح وہ مذکورہ ہے بلا تاویل ایمان لانا فرض ہے۔
اس کی حقیقت اللہ کے حوالہ کرنا طریقہ سلف ہے۔
اسی طرح اہل نار کو مٹھی بھر کر نکالنے اور جنت میں داخل کرنے کا ذکر ہے جو برحق ہے جیسا اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے ویسی اس کی مٹھی ہےجس کی تفصیل معلوم کرنا ہماری عقلوں سے بعید ہے۔
اللہ کی مٹھی کا کیا ٹھکانا ہے۔
بڑے ہی خوش نصیب ہوں گے وہ دوزخی جواللہ کی مٹھی میں آ کر دوزخ سے نجات پاکر داخل جنت ہوں گے۔
حافظ صاحب نقل فرماتے ہیں لا تضامون في رؤيته بالضم والتشديد معناه تجتمعون لر ؤيته في جهة ولا يضم بعضكم إلى بعض ومعناه بفتح التاء كذالك والأصل لاتضامون في رويته باجتماع في جهة فإنكم ترونه في جهالكم كلها- (خلاصة فتخ الباري)
یعنی لفظ تضامون تا کے پیش اور میم کے تشدید کے ساتھ اس کےمعنی یہ کہ اس اللہ کے دیدار کرنے میں تمہاری بھیڑ نہیں ہوگی۔
تم اسے ہر طرف سےدیکھ سکو گے اور بعض بعض سے نہیں ٹکرائے اورتا کے فتحہ کےساتھ بھی معنی یہی ہے۔
اصل میں یہ لاتضامون دو تا کے ساتھ ہے ایک تا کو تخفیف کے لیے حذف کر دیا گیا مطلب یہی کہ تم اس کا ہرطرف سے دیدار کر سکو گے بھیڑ بھاڑ نہیں ہوگی جیسا کہ چاند کےدیکھے کامنظر ہوتا ہے۔
لفظ طاغوت سے شیاطین اوراصنام اور گمراہی وضلالت کے سردار مراد ہیں۔
أثرالسجود سے مراد چہرہ یا سارے اعضائے سجود مراد ہیں قال عیاض یدل علی أن المراد بأثرالسجود الوجه خاصة اثر سجدہ سےخاص چہرہ مراد ہے۔
آخر حدیث میں ایک آخری خوش نصیب انسان کا ذکر ہے جو سب سے پیچھے جنت میں داخل ہو کر سرور حاصل کرےگا۔
دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ جملہ قارئین بخاری شریف مردوں عورتوں کی جنت کا داخلہ عطا کرے اورسب کو دوزخ سے بچائے آمین۔
اللهم إنا نسالك الجتة ونعوزبك من النار فتقبل دعاءنا يا رب العالمين آمين!
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7440   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7440  
7440. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ایمان کو ایک مقام پر روک لیا جائے گا جس کے باعث وہ غمگین اور پریشان ہوں گےاور کہیں گے: کاش ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش پیش کریں تاکہ وہ ہمیں اس پریشانی سے نجات دے۔ چنانچہ وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: آپ سیدنا آدم ہیں۔ تمام لوگوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ پھر جنت میں ٹھہرایا۔ آپ کے لیے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام اشیاء کے نام سیکھائے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس پریشانی سے نجات دے۔ وہ جواب دیں گے: میں تمہاری سفارش کرنے والا نہیں ہوں۔ وہ اپنی خطا یاد کریں گے جو انہوں نے درخت کا پھل کھانے سے متعلق کی تھی۔ حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا۔ وہ کہیں گے: تم نوح ؑ کے پاس جاؤ وہ پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7440]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس سے مراد مقام شفاعت ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3137)
مجموعی طور پر اس سے مراد ایسامرتبہ ہے کہ سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنے لگیں گے، چنانچہ سفارش کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف جاری ہوجائے گی۔

مقام محمود کی اور بھی توجہیات میں، مثلاً:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مقام عطا فرما دیا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔
دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے، وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔
اس شفاعت سے مراد شفاعت عظمی ہے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔

اگرچہ اختصار کی وجہ سے اس حدیث میں شفاعت کا ذکر نہیں ہے، چنانچہ بعض محدثین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث کے آغاز اور اختتام میں مطابقت ناپید ہے کیونکہ ابتدا میں ہے کہ لوگ میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور شفاعت کے طالب ہوں گے کہ ہمارا حساب کر دیا جائے ہم سخت تکلیف میں مبتلا ہیں اور اختتام میں جہنم سے لوگوں کو نکالنے کا ذکر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے قوی اشکال قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 437/11)
شرح عقیدہ طحاویہ کے مصنف نے بھی اس پر تعجب کیا ہے کہ ائمہ کرام اس حدیث کو مختلف طرق سے ذکر کرتے ہیں لیکن شفاعت عظمیٰ اور باری تعالیٰ کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے آنے کا ذکر نہیں کرتے، حالانکہ اس حدیث سے مقصود شفاعت عظمیٰ اور اس کی تفصیل بیان کرناہے۔
دراصل ائمہ کرام کا مقصود معتزلہ اور خوارج کی تردید تھا جو کہتے ہیں کہ اہل کبائر دوزخ سے نہیں نکل پائیں گے، اس لیے انھوں نے صرف اسی مضمون پر اکتفا کیا ہے۔
(شرح العقیدة الطحاویة: 255)
اس شفاعت کی تفصیل "حدیث صور" میں ہے جسے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔
اس حدیث سے تمام اشکال دور ہو جاتا ہے۔
اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے تاہم دیگرشواہد کے پیش نظر مذکورہ اشکال کو دورکرنے کے لیے قابل حجت ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 139/2)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے جبکہ معتزلہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے دور دولت پر حاضری کے لیے اجازت طلب کریں گے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت مل جائے گی تو اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے۔
اس حدیث میں تین مرتبہ یہ ذکر ہوا ہے۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھلی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور اس کے حضور سجدہ کریں گے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 137/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7440