صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
حدیث نمبر: 7443
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ وَلَا حِجَابٌ يَحْجُبُهُ".
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیشمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں ہو گا جس سے اس کا رب کلام نہ کرے، اس کے اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا اور نہ کوئی حجاب ہو گا جو اسے چھپائے رکھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث185  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہو گا ۱؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہو گی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 185]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔ (بندے کو اپنے اعمال کا خود ہی حساب دینا پڑے گا، اس لیے کسی بزرگ کی سفارش وغیرہ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
جہنم سے بچاؤ کے لیے نیک اعمال ضروری ہیں۔

(4)
صدقہ بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھنے والا نیک عمل ہے۔

(5)
اگر بڑا نیک عمل کرنے کی طاقت نہ ہو تو چھوٹا عمل کر لینا چاہیے، کچھ نہ کرنے سے چھوٹی نیکی بھی بہتر ہے۔

(6)
کسی نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، خلوص کے ساتھ کی گئی چھوٹی سی نیکی بھی اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 185   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2415  
´قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2415]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے،
اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے،
اورنیک عمل کرتا رہے،
کیوں کہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2415   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7443  
7443. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سےکوئی ایسا نہیں ہوگا جس سے اس کا رب کلام نہ کرے، کلام کرتے وقت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا اور نہ کوئی حجاب ہی ہوگا جو اسے پردے میں رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7443]
حدیث حاشیہ:
بلکہ ہرمومن اللہ تعالیٰ کو بغیر پردے کے دیکھے گا اور اس سے بات کرے گا یااللہ! ہم کو بھی یہ درجہ نصیب فرمائیو آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7443   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7443  
7443. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سےکوئی ایسا نہیں ہوگا جس سے اس کا رب کلام نہ کرے، کلام کرتے وقت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا اور نہ کوئی حجاب ہی ہوگا جو اسے پردے میں رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7443]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث ایک طویل روایت کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختصار سے بیان کیا ہے۔
اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:
تم میں سے ایک ملاقات کے وقت اپنے رب کے روبروکھڑا ہوگا۔
اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو ترجمانی کے فرائض سر انجام دے۔
اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا:
کیا میں نے تجھے اپنے احکام پہنچانے کے لیے تیری طرف رسول نہیں بھیجا تھا؟ بندہ جواب دے گا:
کیوں نہیں، اے میرے رب! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا اور تجھ پر اپنی رحمت کا فیضان نہیں کیا تھا؟ بندہ کہے گا:
کیوں نہیں، اس کے بعد بندہ اپنی دائیں جانب دیکھے گا تو جہنم کے سوا اسے کوئی چیز نظر نہیں آئے گی، اسی طرح بائیں جانب دیکھے گا تو جہنم کے علاوہ اسے کچھ دکھائی نہیں دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا:
آگ سے بچو، خواہ تمھیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔
اگر کوئی شخص کھجور کا ٹکڑا نہ پائے تو بھلی بات سے دوسرے کی رہنمائی کردے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3595)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن حساب کے وقت اہل ایمان اپنے رب کو دیکھیں گے اور اس کا کلام سنیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے پردے ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی مخلوق سے حجاب اور پردے میں ہے لیکن اہل بدعت ان پردوں کا انکار کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن بطال سے نقل کیا ہے کہ اس سے مراد آنکھوں کی وہ آفت ہے جو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے مانع ہے اور رفع حجاب کے معنی یہ ہیں کہ اہل ایمان کی آنکھوں سے وہ آفت دور ہو جائے گی۔
(فتح الباري: 531/13)
جبکہ متعدد احادیث سے اللہ تعالیٰ کے لے پردوں کا ثبوت ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے لیے نور کے پردے ہیں۔
اگر وہ انھیں دور کردے تو اس کے چہرے کی کرنیں انتہائے نظر تک ہرچیز کو جلا کر رکھ دیں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 445(179)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب:
(نقض تأسيس الجهمية)
میں ان دلائل کی خوب تردید کی ہے جو منکرین حضرات اس سلسلے میں پیش کر سکتے ہیں۔
وہ لائق مطالعہ ہے۔
ان نورانی پردوں کا وہی لوگ انکار یا تاویل کرتے ہیں جن کی فطرت مسخ ہوچکی ہے۔
أعاذنا اللہ منھم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7443