صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
25. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں روایات کہ ”بلاشبہ اللہ کی رحمت نیکو کاروں سے قریب ہے“۔
حدیث نمبر: 7449
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اخْتَصَمَتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ إِلَى رَبّهِمَا، فَقَالَتِ الْجَنَّةُ: يَا رَبِّ، مَا لَهَا لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ، وَقَالَتِ النَّارُ: يَعْنِي أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِي، وَقَالَ لِلنَّارِ: أَنْتِ عَذَابِي، أُصِيبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا، قَالَ: فَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا وَإِنَّهُ يُنْشِئُ لِلنَّارِ مَنْ يَشَاءُ، فَيُلْقَوْنَ فِيهَا، فَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ سورة ق آية 30 ثَلَاثًا حَتَّى يَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ، فَتَمْتَلِئُ وَيُرَدُّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ وَتَقُولُ: قَطْ قَطْ قَطْ".
ہم سے عبیداللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے، کہا مجھ سے میرے والد نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت و دوزخ نے اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کیا۔ جنت نے کہا: اے رب! کیا حال ہے کہ مجھ میں کمزور اور گرے پڑے لوگ ہی داخل ہوں گے اور دوزخ نے کہا کہ مجھ میں تو داخلہ کے لیے متکبروں کو خاص کر دیا گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے اور جہنم سے کہا کہ تو میرا عذاب ہے۔ تیرے ذریعہ میں جسے چاہتا ہوں اس میں مبتلا کرتا ہوں اور تم میں سے ہر ایک کی بھرتی ہونے والی ہے۔ کہا کہ جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ اپنی مخلوق میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور دوزخ کی اس طرح سے کہ اللہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے گا دوزخ کے لیے پیدا کرے گا وہ اس میں ڈالی جائے گی اس کے بعد بھی دوزخ کہے گی اور کچھ مخلوق ہے (میں ابھی خالی ہوں) تین بار ایسا ہی ہو گا، آخر پروردگار اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا، اس وقت وہ بھر جائے گی، ایک پر ایک الٹ کر سمٹ جائے گی، کہنے لگے گی بس بس بس میں بھر گئی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7449  
7449. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے پاس جھگڑا کیا۔ جنت نے کہا: اے میرے رب! اس کا کیا حال ہے کہ اس میں صرف کمزور لوگ اور گرے پڑے فقیر ہی داخل ہوں گے؟ دوذخ نے کہا:اے میرے رب! میں تو متکبرین کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ دوذخ سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔ تم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرنا ہے۔ جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور دوذخ کے لیے جو چاہے گا (موقع پر) پیدا کر دے گا پھر انہیں دوذخ میں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد بھی دوزخ کہے گی: ابھی اور بھی گنجائش ہے۔ تین بار ایسا ہوگا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا تووہ بھر جائے گی۔ اس کے کچھ حصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7449]
حدیث حاشیہ:
یہ اللہ کے قدم رکھنا برحق ہے جس کی تفصیل اللہ ہی کو معلوم ہے اس میں کرید کرنا بدعت ہے اورتسلیم کرنا طریقہ سلف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7449   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7449  
7449. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے پاس جھگڑا کیا۔ جنت نے کہا: اے میرے رب! اس کا کیا حال ہے کہ اس میں صرف کمزور لوگ اور گرے پڑے فقیر ہی داخل ہوں گے؟ دوذخ نے کہا:اے میرے رب! میں تو متکبرین کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ دوذخ سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔ تم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرنا ہے۔ جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور دوذخ کے لیے جو چاہے گا (موقع پر) پیدا کر دے گا پھر انہیں دوذخ میں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد بھی دوزخ کہے گی: ابھی اور بھی گنجائش ہے۔ تین بار ایسا ہوگا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا تووہ بھر جائے گی۔ اس کے کچھ حصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7449]
حدیث حاشیہ:

اللہ تعالیٰ کے حضور جنت اور دوزخ کا جھگڑنا حقیقت پر مبنی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان میں شعور تمیز اور قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔
ایسا کرنا صرف جنت یا دوزخ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پہاڑبھی حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ تسبیح کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے بلکہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے لیکن ہم اس تسبیح کو سمجھنے سے قاصر ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ساتوں آسمان زمین اور جو (مخلوق)
بھی ان میں ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں بلکہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
(بنی اسرائیل17۔
44)


امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات رحمت کا اطلاق مخلوق پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا:
تو میری رحمت ہے اور جنت اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ اس رحمت کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور جنت اللہ تعالیٰ کے مخلص اور نیکو کار بندوں کے بہت قریب ہے۔
ایک روایت میں ہے جنت میں بے شمار مخلوق کو داخل کرنے کے بعد بھی اس کی بہت سی جگہ بچ رہے گی تو اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس وقت کوئی مخلوق پیدا فرمائے گا۔
اور اسے جنت کے باقی ماند ہ حصے میں ٹھہرائے گا۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7384)
نیز صحیح مسلم میں ہے۔
اللہ تعالیٰ جنت کو بھرنے کے لیے وہاں کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔
(صحیح مسلم، الجنة ونعیمها، حدیث: 7175 (2846)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں بھی انھی الفاظ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کو بھرنے کے لیے وہاں کوئی مخلوق پیدا کرےگا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4850)
لیکن پیش کردہ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھرنے کے لیے کسی مخلوق کو پیدا کرے گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے جہنم بھرنے کا قاعدہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
حق بات یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھروں گا۔
جو تیری پیروی کریں گے۔
(ص: 38۔
84۔
85)


اس آیت کریمہ کے پیش نظر علمائے امت نے مذکورہ حدیث صحیح بخاری کے متعلق دو مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔
علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری کی اس حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
جو شخص گناہ گار نہ ہو اسے عذاب دینے میں کچھ حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر اسے عذاب دے تو عدل کے منافی نہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن ہمیں اس موقف سے اختلاف ہے کیونکہ ایسا کرنا اس کی شان کریمی کے خلاف ہے اس نے خود پر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔
(الأنعام: 54)
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
اور تیرا رب (کسی پر ذرہ بھربھی)
ظلم نہیں کرے گا۔
(الکهف: 1849)
البتہ انعام کی کچھ اور بات ہے وہ نافرمان پر کیا جا سکتا ہے لیکن بے گناہ کو عذاب دینا کرم الٰہی کے لائق نہیں۔
دوسرا موقف ہے کہ حدیث کے راویوں سے خطا ہوئی ہے۔
انھوں نے معاملہ الٹ کر کے بیان کیا ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ جنت کو بھرنے کے لیے موقع پر اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو پیدا کرے گا۔
لیکن راویوں نے سہواً جنت کے بجائے جہنم کا ذکر کر دیا ہے۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(حاوي الأرواح: 295)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا دفاع کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر یہ حدیث بیان کی ہے کہ جنت کے لیے اپنی مخلوق پیدا کرے گا جبکہ مذکورہ روایت اس کے برعکس ہے کہ جہنم کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد راویوں کے وہم کی نشاندہی کرنا ہے جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ جب کسی راوی سے غلط بیانی ہو جائے تو صحیح روایات کو بیان کر کے اس کی غلطی کو واضح کرتے ہیں اس مقام پر بھی ایسا ہوا ہے۔
(منهاج السنة: 25/3)

ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ مذکورہ روایت میں قلب واقع ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف رسول بھیج کر اتمام حجت کرتا ہے پھر اصرار و انکار پر قیامت کے دن انھیں عذاب دے گا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج لیں۔
(بني إسرائیل: 17۔
15)

نیز فرمایا:
جب جہنم میں کوئی گروہ پھینکا جائے تو دوزخ کے محافظ ان سے پوچھیں گے:
کیا تمھارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے:
کیوں نہیں! یقیناً ڈرانے والا تو ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے کچھ نہیں اتارا تم ہی بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔
(الملك: 67۔

9)

بہر حال راویوں کی طرف وہم کی نسبت کرنا اس موقف سے کہیں آسان ہے کہ اسے اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ کی شان کریمی پر حرف آئے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7449