صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
33. بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ مَعَ جِبْرِيلَ وَنِدَاءِ اللَّهِ الْمَلاَئِكَةَ:
باب: جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا کلام کرنا۔
حدیث نمبر: 7486
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ وَصَلَاةِ الْفَجْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟، فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر اور فجر کی نمازیوں میں دو وقت کے فرشتے اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ فرشتے اوپر جاتے ہیں جنہوں نے رات تمہارے ساتھ گزاری ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ ا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے جب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 98  
´باجماعت نماز کی فضیلت`
«. . . 331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 98]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 555، ومسلم 632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ واجماعِ تابعین سے ثابت ہے۔
➋ فرشتوں کا آسمان پر جانا اور آنا روشنی کی رفتار کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایسی رفتار سے آتے جاتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے بے حد زیادہ ہے۔ ہم اس کی کیفیت سے بے خبر ہیں۔
➌ اہل ایمان کے دل ودماغ میں ہر وقت نماز کا خیال رہتا ہے۔
➍ باجماعت نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
➎ غیب پر ایمان لانا ضروری ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
➏ فجر اور عصر کی نمازیں بہت زیادہ فضیلت واہمیت کی حامل ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7486  
7486. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7486]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سےاما م بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ تعالی فرشتوں سے کلام کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7486   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7486  
7486. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7486]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق فرشتے لوگوں کے شب وروز کے عمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں۔
اسی طرح ان کا تانتا لگا رہتا ہے۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ دوسرے فرشتوں سے بھی کلام کرتا ہے اور اس کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کلام حروف واصوات پر مشتمل مبنی برحقیقت ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے اورسوال ایسا کلام ہوتا ہے جو دوسروں کو سنائی دے اور وہ کلام حروف وآواز پر مشتمل ہو۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث میں رات گزارنے والے فرشتوں کا خاص طور پر اس لیے ذکر ہوا کہ جو لوگ رات کے وقت نیک کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نےرات کو آرام کے لیے بنایا ہے تو وہ دن کے اوقات میں بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف رہتے ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7486