صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
87. بَابُ وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى:
باب: نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا۔
حدیث نمبر: 740
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ"، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لَا، أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 115  
´نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا چاہئیے`
«. . . 409- وبه: عن سهل أنه قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلاة، قال أبو حازم: ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا سہل (بن سعد الساعدی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا: میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 115]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 740 من حديث مالك به]

تفقه:
➊ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعدد صحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں، مثلاً:
① وائل بن حجر رضی اللہ عنہ [مسلم 401 و ابوداؤد 727]
② جابر رضی اللہ عنہ [أحمد 381/3 ح 15152 و سنده حسن]
③ ابن عباس رضی اللہ عنہ [صحيح ابن حبان الموارد 885 و سنده صحيح]
④ عبد اللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ [معرفة الصحابة لابي نعيم الاصبهاني 610/3 ح 4054 و سنه حسن و اور ده الضياء فى المختارة 130/9 ح 114]
⑤ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ [ابوداود: 755 وابن ماجه: 811 وسنده حسن]
⑥ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ [ابوداود: 754 واسناده حسن واور ده الضياء المقدسي فى المختارة 9/301 ح257،]
● یہ حدیث متواتر ہے۔ [نظم المتناثر من الحديث المتواتر ص98 ح68،]
تنبیہ:
المعجم الکبیر للطبرانی (20/74 ح139) کی جس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے اور کبھی کبھار دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس میں خُصیب بن جحدر راوی کذاب ہے۔ [مجمع الزوائد 2/102]، نيز ديكهئے: لسان الميزان 2/486، لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔ نیز دیکھئے: میری کتاب نماز میں سینے پر ہاتہ باندہنے کا حکم اور مقام [ص8]
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آ جائیں گے۔ دیکھئے تفقہ نمبر ➑
● ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، رُسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا۔ [سنن نسائي مع حاشية السندهي: ج1 ص141 ح890، ابوداود ج1 ص112 ح727] اسے [ابن خزيمه 1/243 ح48] اور [ابن حبان الاحسان: 2/202 ح485] نے صحیح کہا ہے۔
● سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آیا ہے: «يضيع هٰذه علٰي صدره۔۔ الخ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ الخ [مسند أحمد ج5 ص 226 ح22313، واللفظ له، التحقيق لابن الجوزي ج1 ص 283 ح 477 و فى نسخة ج1 ص 338 و سنده حسن]
➋ سنن ابی داود [ح756] وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے، علامہ نووی نے کہا: عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔ [نصب الراية للزيلعي الحنفي 1/314]
● نیموی فرماتے ہیں: «وفيه عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وهو ضعيف» اور اس میں عبد الرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور و ہ ضعیف ہے۔ [حاشيه آثار السنن ح 330،]
● مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فى شرح الہدایۃ [208/2] وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ [17 106/1] میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے
➌ یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران میں بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے، صرف لباس، آواز اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہلِ حدیث کے نزدیک جو فرق دلیل ونصِ صریح سے ثابت ہو جائے تو برحق ہے، اور بے دلیل وضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔
➍ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب «تحت السرة» (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: منکر الحدیث [تقريب التهذيب: 2304] نیز دیکھئے: [مختصرا لخلافيات للبيهقي 1/342، تاليف ابن فرح الاشبيلي والخلافيات مخطوط ص37ب] اور کتب اسماء الرجال۔
◄ بعض لوگ مصنف ابی شیبہ سے «تحت السرة» والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں «تحت السرة» کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطللو بغا [كذاب بقول البقاعي/الضوء اللا مع 182/2] نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا: پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ [فيض الباري 2/267]
➏ حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [الفقه على المذاهب الاربعة 251/1]
➐ تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب «المدونة» میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالک نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا:
مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں امام مالک اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگر نوافل میں قیام لمبا ہو تو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ ديكهئے [المدونة 1/76]
◄ اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالک کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہی کافی ہے۔
➑ ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک کے حصے کو «ذراع» کہتے ہیں۔
➒ سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں «فوق السرة» یعنی ناف سے اوپر (سینے پر) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [امالي عبد الرزاق/الفوائد لابن مندة 324/2 ح 1899 و سنده صحيح]
➓ سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 409   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 740  
740. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھے۔ ابوحازم رازی نے کہا کہ وہ (حضرت سہل بن سعد ؓ) اس حکم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ (ایک اور راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوب کیا جاتا تھا، یہ الفاظ نہیں کہے کہ وہ اس حکم کو منسوب کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:740]
حدیث حاشیہ:
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لم يذكر سهل ابن سعد في حديثه محل وضع اليدين من الجسد، وهو عندنا على الصدر لما ورد في ذلك من أحاديث صريحة قوية. فمنها حديث وائل بن حجر قال:
"صليت مع النبي - صلى الله عليه وسلم - فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره"، أخرجه ابن خزيمة في صحيحه ذكره الحافظ في بلوغ المرام والدراية والتخليص وفتح الباري. والنووي في الخلاصة وشرح المهذب وشرح مسلم للاحتجاج به على ما ذهبت إليه الشافعية من وضع اليدين على الصدر، وذكرهما هذا الحديث في معرض الاحتجاج به، وسكوتهما عن الكلام فيه يدل على أن حديث وائل هذا عندهما صحيح أو حسن قابل للاحتجاج۔
(مرعاة المفاتیح)
یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔
جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔
جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔
آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔
اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔
اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔
حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔
اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔
چنانچہ فرماتے ہیں۔
حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماك عن قبیصة ابن هلب عن أبیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ینصرف عن یمینه وعن یسارہ و رأیته یضع هذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواة هذاالحدیث کلهم ثقات و إسنادہ متصل۔
(تحفة الأحوذي، ص: 216)
یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔
وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا۔
آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔
اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔
تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے:
حدثنا أبوتوبة حدثنا الهیثم یعني ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبهما علی صدرہ۔
(حوالہ مذکور)
یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔
عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔
اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔
امام شافعی ؒ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔
جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔
چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔
پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے (صلی اللہ علیه وسلم)
چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کریمہ ﴿فصل لربك وانحر﴾ کی تفسیر میںروایت کیاہے یعنی ضع یدك الیمنی علی الشمال عندالنحر۔
یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔
حضرت علی ؓ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔
بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔
حضرت امام ترمذی ؒ نے اس بارے میں فرمایاہے:
ورأی بعضهم أن یضعهما فوق السرة ورأی بعضهم أن یضعهما تحت السرة وکل ذلك واسعة عندهم۔
یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔
بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔
اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔
جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ ؓ سے روایت کیاہے کہ أن علیا قال السنة وضع الکف علی تحت السرة۔
یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قلت في إسناد هذاالحدیث عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي وعلیه مدارهذاالحدیث وهوضعیف لایصلح للاحتجاج۔
یعنی میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔
اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں وهو حدیث متفق علی تضعیفه فإن عبدالرحمن بن إسحاق ضعیف بالاتفاق۔
یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔
اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ '' فتح الغفور في وضع الأیدي علی الصدور'' میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرة۔
(ناف کے نیچے)
والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔
اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرة کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔
اس کی مزید تائید مسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرة والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے:
حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبري عن علقمة بن وائل الحضرمي عن أبیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم واضعا یمینه علی شماله في الصلوٰة۔
یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔
دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرة کے الفاظ نہیں ہیں۔
اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔
پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔
ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔
اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔
واللہ هوالموفق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 740   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:740  
740. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھے۔ ابوحازم رازی نے کہا کہ وہ (حضرت سہل بن سعد ؓ) اس حکم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ (ایک اور راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوب کیا جاتا تھا، یہ الفاظ نہیں کہے کہ وہ اس حکم کو منسوب کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:740]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسئلہ مذکور کے متعلق پہلا اختلاف وضع وار سال کا ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں ہاتھ باندھے جائیں۔
انھیں کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
دوسرا اختلاف کیفیت سے متعلق ہے کہ ہاتھ کس طرح باندھے جائیں؟اور تیسرا اختلاف محل وضع کا ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟حدیث بالا میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور کچھ کیفیت کا بھی بیان ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا جائے۔
لیکن کلائی کے کس مقام پر رکھا جائے اس کی وضاحت حضرت وائل بن حجر ؓ کی روایت میں بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں کی پشت پر، جوڑ پر اور کلائی پر رکھا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 727)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب نماز شروع کی تو اللہ اکبر کے بعد آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 896(401)
ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے تھے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 252)
محل وضع کے متعلق بھی صراحت ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔
حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا۔
(صحیح ابن خزیمة، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاة……1/243، حدیث: 479)
حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی حدیث کے مطابق بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔
سینے پر رکھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں کے رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔
(مسندأحمد: 226/5)
زیر ناف ہاتھ باندھنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں۔
سینے پر ہاتھ باندھنا عاجزی کی علامت، نماز میں فعل عبث سے رکاوٹ، دل کی حفاظت اور خشوع کے زیادہ مناسب ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگلا عنوان خشوع کے متعلق قائم کیا ہے۔
چونکہ دل نیت کا محل ہے، عام طور پر انسان جس چیز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔
اس پر دونوں ہاتھ رکھ لیتا ہے۔
(فتح الباري: 291/2)
ان روایات کے پیش نظر ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر،جوڑ اور کلائی پر آجائے۔
پھر دونوں کو سینے پر رکھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔
گویا ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں:
٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔
٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھا جائے۔
٭دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھا جائے۔
کلائی کو کلائی پر رکھ کر کہنی کو پکڑنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(2)
ہاتھ باندھنے کے متعلق مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف ہاتھ رکھیں۔
یہ تفریق غیر شرعی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مرد اور عورت کے طریقۂ نماز میں کوئی فرق نہیں بتایا۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہاتھ زیر ناف بندھے جائیں تو بایاں ہاتھ اوپر اور دایاں نیچے ہوتا ہے جبکہ ہمیں اس کے برعکس حکم دیا گیا ہے، یعنی دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 740