صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
36. بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَغَيْرِهِمْ:
باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے۔
حدیث نمبر: 7510
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: اجْتَمَعْنَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَذَهَبْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَذَهَبْنَا مَعَنَا بِثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ لَنَا عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَإِذَا هُوَ فِي قَصْرِهِ، فَوَافَقْنَاهُ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَّا، فَأَذِنَ لَنَا وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقُلْنَا لِثَابِتٍ لَا تَسْأَلْهُ عَنْ شَيْءٍ أَوَّلَ مِنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ هَؤُلَاءِ إِخْوَانُكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ جَاءُوكَ يَسْأَلُونَكَ عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ فَإِنَّهُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيم، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى، فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِي، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ أَنَسٍ، قُلْتُ لِبَعْضِ أَصْحَابِنَا: لَوْ مَرَرْنَا بِالْحَسَنِ وَهُوَ مُتَوَارٍ فِي مَنْزِلِ أَبِي خَلِيفَةَ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَأَتَيْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَأَذِنَ لَنَا، فَقُلْنَا لَهُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَاكَ مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَلَمْ نَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَنَا فِي الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: هِيهْ، فَحَدَّثْنَاهُ بِالْحَدِيثِ، فَانْتَهَى إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ، فَقَالَ: هِيهْ، فَقُلْنَا: لَمْ يَزِدْ لَنَا عَلَى هَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ حَدَّثَنِي وَهُوَ جَمِيعٌ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً، فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَمْ كَرِهَ أَنْ تَتَّكِلُوا، قُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، فَحَدِّثْنَا فَضَحِكَ، وَقَالَ: خُلِقَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا مَا ذَكَرْتُهُ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدَّثَنِ كَمَا حَدَّثَكُمْ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَقُولُ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي، لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ہلال العنزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ بصرہ کے کچھ لوگ ہمارے پاس جمع ہو گئے۔ پھر ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اپنے ساتھ ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی لے گئے تاکہ وہ ہمارے لیے شفاعت کی حدیث پوچھیں۔ انس رضی اللہ عنہ اپنے محل میں تھے اور جب ہم پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ملاقات کی اجازت چاہی اور ہمیں اجازت مل گئی۔ اس وقت وہ اپنے بستر پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ثابت سے کہا تھا کہ حدیث شفاعت سے پہلے ان سے اور کچھ نہ پوچھنا۔ چنانچہ انہوں نے کہا: اے ابوحمزہ! یہ آپ کے بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے شفاعت کی حدیث پوچھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کا دن جب آئے گا تو لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ ہماری اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ سے شرف ہم کلامی پانے والے ہیں۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، البتہ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں شفاعت کے لیے ہوں اور پھر میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا اور مجھے اجازت دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ تعریفوں کے الفاظ مجھے الہام کرے گا جن کے ذریعہ میں اللہ کی حمد بیان کروں گا جو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں۔ چنانچہ جب میں یہ تعریفیں بیان کروں گا اللہ کے حضور میں سجدہ کرنے والا ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو وہ سنا جائے گا، جو مانگو گے وہ دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ پھر میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، کہا جائے گا کہ جاؤ اور ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لو جن کے دل میں ذرہ یا رائی برابر بھی ایمان ہو۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا۔ پھر میں لوٹوں گا اور یہی تعریفیں پھر کروں گا اور اللہ کے لیے سجدہ میں چلا جاؤں گا مجھ سے کہا جائے گا۔ اپنا سر اٹھاؤ کہو، آپ کی سنی جائے گی، میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے کم سے کم تر حصہ کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی جہنم سے نکال لو۔ پھر میں جاؤں گا اور نکالوں گا۔ پھر جب ہم انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں امام حسن بصری کے پاس بھی چلنا چاہئیے، وہ اس وقت ابوخلیفہ کے مکان میں تھے اور ان سے وہ حدیث بیان کرنا چاہئیے جو انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا۔ پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی اور ہم نے ان سے کہا: اے ابوسعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے یہاں سے آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی، اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی، انہوں نے کہا کہ بیان کرو۔ ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا کہ اور بیان کرو، ہم نے کہا کہ اس سے زیادہ انہوں نے نہیں بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ جب صحت مند تھے، بیس سال اب سے پہلے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے یا اس لیے بیان کرنا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا ابوسعید! پھر ہم سے وہ حدیث بیان کیجئے۔ آپ اس پر ہنسے اور فرمایا: انسان بڑا جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لیے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کی (اور اس میں یہ لفظ اور بڑھائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹوں گا اور وہی تعریفیں کروں گا اور اللہ کے لیے سجدہ میں چلا جاؤں گا۔ اللہ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے سنا جائے گا، جو مانگو کے دیا جائے گا، جو شفاعت کرو کے قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! مجھے ان کے بارے میں بھی اجازت دیجئیے جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری عزت، میرے جلال، میری کبریائی، میری بڑائی کی قسم! اس میں سے (میں) انہیں بھی نکالوں گا جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7510  
7510. سیدنا معبد بن بلال عنزی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم اہل بصرہ جمع ہوئے اور سیان ثابت بنانی کو ساتھ لے کر سیدنا انس ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیث شفاعت کے متتعلق پوچھیں۔ سیدنا انس ؓ اس وقت اپنے محل میں تشریف فرما تھے۔ جب ہم انس ؓ کے وہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ اپنے بستر بیٹھے تھے۔ ہم نے سیدنا ثابت سے کہہ رکھا تھا کہ ان سے حدیث شفاعت سے پہلے کوئی بات نہ پوچھنا، چنانچہ سیدنا ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ آپ کے (دینی) بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے یہ حدیث شفاعت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: محمد رسول اللہﷺ نے ہمیں حدیث سنائی، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور (ان سے) عرض کریں گے: آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7510]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے دوسرے طرق میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس کے دل میں ایک جو برابر بھی یا رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اس کوتم دوزخ سےنکال لاؤ۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔
اسی سے شفاعت کا اذن ثابت ہوتا ہے جو رسول کریم ﷺ کوعرش پر سجدہ میں ایک نامعلوم مدت تک رہنے کے بعد حاصل ہوگا۔
آپ اپنی امت کا اس درجہ خیال فرمائیں گے کہ جب تک ایک گنہگار موحد مسلمان بھی دوزخ میں باقی رہےگا آپ برابرشفاعت کےلیے اذن مانگتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ قیامت کےدن ہرمومن مسلمان کو اور ہم سب قارئین بخاری کو اپنے حبیب کی شفاعت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین۔
نیز یہ بھی روشن طور پر ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسول کریم ﷺ سےاتنا اتنا خوش ہو کہ آپ کی ہر سفارش قبول کرے گا اور آپ کی سفارش سے دوزخ سے ہر اس موحد مسلمان کو بھی نجات دے دے گا جس کےدل میں ایک رائی کے دانہ یا اس سےبھی کم ترایمان ہوگا۔
یااللہ! ہم جملہ قارئین بخاری شریف کوروز محشر میں اپنے حبیب کی شفاعت نصیب فرمائیو جولوگ جہمیہ معتزلہ وغیرہ کلام الہی کےانکاری ہیں ان کا بھی اس حدیث سے خوب خوب رد ہوا۔
حضرت انس بن مالک خادم نبوی قبیلہ خزرج سے ہیں۔
رسول کریمﷺ کی دس سال خدمت کی۔
خلافت فاروقی میں بصرہ میں جا رہے تھے۔
سنہ 91ھ میں بعمر 103سال ایک سو اولاد ذکور و اناث چھوڑ کر بصرہ میں وفات پانے والے آخری صحابی ہیں۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7510   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7510  
7510. سیدنا معبد بن بلال عنزی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم اہل بصرہ جمع ہوئے اور سیان ثابت بنانی کو ساتھ لے کر سیدنا انس ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیث شفاعت کے متتعلق پوچھیں۔ سیدنا انس ؓ اس وقت اپنے محل میں تشریف فرما تھے۔ جب ہم انس ؓ کے وہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ اپنے بستر بیٹھے تھے۔ ہم نے سیدنا ثابت سے کہہ رکھا تھا کہ ان سے حدیث شفاعت سے پہلے کوئی بات نہ پوچھنا، چنانچہ سیدنا ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ آپ کے (دینی) بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے یہ حدیث شفاعت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: محمد رسول اللہﷺ نے ہمیں حدیث سنائی، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور (ان سے) عرض کریں گے: آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7510]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث پہلے(7410۔
7440)

بیان ہو چکی ہے۔
ہم نے وہاں اس اعتراض کا جواب دیا تھا کہ اس کی ابتدا اس کی انتہا سے ہم آہنگ نہیں کیونکہ اس کی ابتدا میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شفاعت طلب کرنے والے عام لوگ ہیں جبکہ سفارش خاص اس اُمت کے لیے کی جا رہی ہے؟ نیز اس سفارش کا مطالبہ میدان محشر کا خوف وہراس دور کرنے کے لیے تھا جبکہ اس میں لوگوں کو دوزخ سے نکالنے کا ذکر ہے؟ ہم نے وہاں جواب دیا تھا کہ اس حدیث میں اختصار ہے کہ اس میں صرف امت محمدیہ کی سفارش پر اکتفا کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے۔
وہ قیامت کے دن خوف وہراس کے ازالے کے لیے ہوگی۔
یہی وہ مقام محمود کی خصوصیت ہے جس میں کوئی اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک نہیں ہے جہنم سے نکالنے کے متعلق دیگرانبیاء علیہم السلام بلکہ صلحائے امت بھی سفارش کریں گے۔
اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں جو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اسے دوزخ سے نکال لاؤ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہم السلام سے ہم کلام ہوگا لیکن جہمیہ اور معتزلہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ آواز حروف سے کلام کرنا جسم کا خاصا ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ان کی خوب تردید فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مبنی برحقیقت ہے اور وہ مخلوق کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے، نیز وہ غیر مخلوق ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے ہمکنار کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہم سب کو جمع کرے۔
آمین یارب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7510