صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
36. بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَغَيْرِهِمْ:
باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے۔
حدیث نمبر: 7513
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ حَبْرٌ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ: إِنَّهُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَعَلَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْخَلَائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَهُزُّهُنَّ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الْمَلِكُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا لِقَوْلِهِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِه إِلَى قَوْلِهِ يُشْرِكُون سورة الزمر آية 67.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہودیوں کا ایک عالم خدمت نبوی میں حاضر ہوا اور کہا کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پانی اور کیچڑ کو ایک انگلی پر، اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا اور پھر اسے ہلائے گا اور کہے گا میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک کھل گئے، اس بات کی تصدیق اور تعجب کرتے ہوئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره‏» انہوں نے اللہ کی شان کے مطابق قدر نہیں کی اللہ تعالیٰ کے ارشاد «يشركون‏» تک۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7451  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) یہ فرمان کہ بلاشبہ اللہ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے وہ اپنی جگہ سے ٹل نہیں سکتے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" جَاءَ حَبْرٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يَضَعُ السَّمَاءَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرْضَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ وَالْأَنْهَارَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ بِيَدِهِ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91 . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر، درخت اور نہروں کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا۔ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره» (جو سورۃ الزمر میں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7451]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7451باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا بظاہر باب سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت اس باب میں نہیں ہے اور نہ اس جگہ پر موجود ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ «امساك السمٰوٰت» یعنی آسمانوں کا تھامنا سابقہ باب سے ثابت فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا آسمانوں اور زمینوں کو تھامنا دراصل اس کی رحمت کے ساتھ ملحق ہے، سابقہ باب جو اللہ تعالیٰ کی رحمت پر قائم فرمایا ہے ممکن ہے کہ اس باب میں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کیوں کہ سابقہ باب صفۃ الرحمۃ کے ساتھ دلیل رکھتا ہے، اس مناسبت کی توجیہ کا اشارہ قرآن مجید کی آیت کے ذریعے بھی ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
« ﴿وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ » [الحج: 65]
وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور نرمی کرنے والا اور مہربان ہے۔
آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنی رحمت سے تھامے ہوئے ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امساک کی تفسیر جو آیت میں ہے حدیث کے ذریعے کر رہے ہوں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 323   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7513  
7513. سیدنا عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: یہودیوں کا ایک عالم آیا اور(رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر) کہنے لگا: جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھالے گا، پھر ان تمام کو حرکت دے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسنے لگے یہاں تک آپ کے دندان مبارک کھل گئے، آپ اس کی تصدیق اور ان باتوں پرتعجب کر رہے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔۔۔۔۔۔ شریک ٹھہراتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7513]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی اللہ پاک کا کلام کرنا مذکور ہے۔
باب سے یہی مطابقت ہے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل کتاب کی سچی باتوں کی تصدیق کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
آنحضرت ﷺ کو ہنسی اس بات پر آئی کہ ایک یہودی اللہ کی شان کس کس طورپربیان کر رہا ہے حالانکہ یہود وہ قوم ہے جس نےاللہ پاک کی قدرومتزلت کوکما حقہ نہیں سمجھا اورحضرت عزیرؑ کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا حالانکہ اللہ پاک ایسے رشتوں ناطوں سےبہت ارفع واعلیٰ ہے۔
صدق لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد-
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7513   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7513  
7513. سیدنا عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: یہودیوں کا ایک عالم آیا اور(رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر) کہنے لگا: جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھالے گا، پھر ان تمام کو حرکت دے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسنے لگے یہاں تک آپ کے دندان مبارک کھل گئے، آپ اس کی تصدیق اور ان باتوں پرتعجب کر رہے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔۔۔۔۔۔ شریک ٹھہراتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7513]
حدیث حاشیہ:

گویا سب معبودان باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ مشرک اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔
اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مذکورہ ہے کہ میں بادشاہ ہوں۔
بلا شبہ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئےگا۔
جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔
سب قیامت کی ہولنا کیوں سے دہشت زدہ ہوں گے۔
کسی کوکلام کرنے کی ہمت اور فرصت نہیں ہو گی۔
ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کر کے پوچھے گا۔
آج حکومت کس کی ہے؟ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر کہاں ہیں؟ متکبر کہاں ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا۔
آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے جو بہت دبدبے والا ہے۔
(المؤمن: 40۔
16)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی اس بات پر آئی کہ یہودی عالم اللہ تعالیٰ کی شان کس انداز سے بیان کر رہا ہے۔
حالانکہ یہود وہ قوم ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت کو کماحقہ نہیں سمجھا اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی صحیح اور سچی باتوں کی تصدیق کرنا معیوب بات نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7513