صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
40. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) ارشاد ”پس اللہ کے شریک نہ بناؤ“۔
لِقَوْلِهِ تَعَالَى: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ سورة البقرة آية 152 وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلا تُنْظِرُونِ {71} فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلا عَلَى اللَّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ سورة يونس آية 71 - 72 غُمَّةٌ هَمٌّ وَضِيقٌ قَالَ مُجَاهِدٌ اقْضُوا إِلَيَّ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ يُقَالُ افْرُقْ اقْضِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ سورة التوبة آية 6 إِنْسَانٌ يَأْتِيهِ فَيَسْتَمِعُ مَا يَقُولُ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَهُوَ آمِنٌ حَتَّى يَأْتِيَهُ فَيَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ وَحَتَّى يَبْلُغَ مَأْمَنَهُ حَيْثُ جَاءَهُ النَّبَأُ الْعَظِيمُ الْقُرْآنُ صَوَابًا حَقًّا فِي الدُّنْيَا وَعَمَلٌ بِهِ.
‏‏‏‏ جیسا کہ (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فاذكروني أذكركم» تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کروں گا اور (سورۃ یونس میں) فرمایا اے پیغمبر! ان کو نوح کا قصہ سنا جب اس نے اپنی قوم سے کہا۔ بھائیو! اگر میرا رہنا تم میں اور اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا تم پر گراں گزرتا ہے تو میں نے اللہ پر اپنا کام چھوڑ دیا (اس پر بھروسہ کیا) تم بھی اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر (میرے قتل یا اخراج کی) ٹھہرا لو۔ پھر اس تجویز کے پورا کرنے میں کچھ فکر نہ کرو بے تامل کر ڈالو۔ مجھ کو بھی فرصت نہ دو، اگر تم میری باتیں نہ مانو تو خیر میں تم سے کچھ دنیا کی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت تو اللہ ہی پر ہے اس کی طرف سے مجھ کو اس کے تابعداروں میں شریک رہنے کا حکم ملا ہے۔ «غمة» کا معنی غم اور تنگی۔ مجاہد نے کہا «اقضوا إلى‏» کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پورا کر ڈالو، قصہ تمام کرو۔ عرب لوگ کہتے ہیں «افرق» یعنی فیصلہ کر دے اور مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں «وإن أحد من المشركين استجارك فأجره حتى يسمع كلام الله‏» الخ، (سورۃ التوبہ میں) کہا یعنی اگر کوئی کافر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کا کلام اور جو آپ پر اترا اس کو سننے کے لیے آئے تو اس کو امن ہے جب تک وہ اس طرح آتا اور اللہ کا کلام سنتا رہے اور جب تک وہ اس امن کی جگہ نہ پہنچ جائے جہاں سے وہ آیا تھا اور (سورۃ نبا میں) «لنبأ العظيم» سے قرآن مراد ہے اور اس سورۃ میں جو «صوابا‏» ہے تو «صواب» سے حق بات کہنا اور پر اس پر عمل کرنا مراد ہے۔
وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ} وَقَوْلِهِ: {وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ}، {وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}. وَقَالَ عِكْرِمَةُ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ سورة يوسف آية 106 وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ وَمَنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَذَلِكَ إِيمَانُهُمْ وَهُمْ يَعْبُدُونَ غَيْرَهُ وَمَا ذُكِرَ فِي خَلْقِ أَفْعَالِ الْعِبَادِ وَأَكْسَابِهِمْ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا سورة الفرقان آية 2، وَقَالَ مُجَاهِدٌ مَا تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ إِلَّا بِالْحَقِّ بِالرِّسَالَةِ وَالْعَذَابِ لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمُ الْمُبَلِّغِينَ الْمُؤَدِّينَ مِنَ الرُّسُلِ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ عِنْدَنَا وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ الْقُرْآنُ وَصَدَّقَ بِهِ الْمُؤْمِنُ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَذَا الَّذِي أَعْطَيْتَنِي عَمِلْتُ بِمَا فِيهِ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ حم سجدہ میں) تم اس کے شریک بناتے ہو، وہ تو تمام دنیا کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے (سورۃ الفرقان)۔ اور بلاشبہ آپ پر اور آپ سے پہلے پیغمبروں پر وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل غارت ہو جائے گا اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے (سورۃ الزمر)۔ اور عکرمہ نے کہا «وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون» کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ ان کا ایمان ہے لیکن عبادت غیر اللہ کی کرتے ہیں۔ اور اس باب میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بندے کے افعال، ان کا کسب سب مخلوق الٰہی ہیں کیونکہ اللہ نے (سورۃ الفرقان میں) فرمایا اسی پروردگار نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر ایک انداز سے اس کو درست کیا۔ اور مجاہد نے کہا کہ (سورۃ الحج میں) جو ہے «ما تنزل الملائكة إلا بالحق» کا معنی یہ ہے کہ فرشتے اللہ کا پیغام اور اس کا عذاب لے کر اترتے ہیں۔ اور (سورۃ الاحزاب) میں جو فرمایا سچوں سے ان کی سچائی کا حال پوچھے یعنی پیغمبروں سے جو اللہ کا حکم پہنچاتے ہیں۔ اور (سورۃ حجر) میں فرمایا ہم قرآن کے نگہبان ہیں۔ مجاہد نے کہا یعنی اپنے پاس اور (سورۃ الزمر میں) فرمایا اور سچی بات لے کر آیا یعنی قرآن اور اس نے اس کو سچا جانا یعنی مومن جو قیامت کے دن پروردگار سے عرض کرے گا تو نے مجھ کو قرآن دیا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔
حدیث نمبر: 7520
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ؟، قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، قُلْتُ: إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِيمٌ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟، قَالَ: ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟، قَالَ: ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرجیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4477  
´شرک سب سے بڑا گناہ ہے`
«. . . سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4477]

لغوی توضیح:
«نِدًّا» مثل، نظیر، شریک۔
«حَلِيلَةَ جَارِكَ» پڑوسی کی بیوی۔

فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور شرک یہ ہے کہ اللہ کی توحید ربوبیت، الوہیت یا اسماء و صفات میں کسی کو اس کے برابر سمجھا جائے۔ شرک توحید کی ضد ہے جیسے کفر ایمان کی ضد ہے۔ [الايمان حقيقة، خوارمه ص: 109]
قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا معاف کردے گا. [سورة النساء: آيت 48]
اسی باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ الله کے ساتھ شرک نہ کرنا خواہ تمہیں قتل کر دیا جائے اور جلا دیا جائے . [صحيح: صحيح الترغيب 2516، ارواء الغليل 89/7]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 53   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 49  
´قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ أَنْ تَدْعُوَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قَالَ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قَالَ ثمَّ أَي قَالَ ثمَّ أَن تُزَانِي بحليلة جَارك فَأنْزل الله عز وَجل تَصْدِيقَهَا (وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يزنون وَمن يفعل ذَلِك يلق أثاما) ‏‏‏‏الْآيَة ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کون سا گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے تم اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ۔ اس نے کہا: پھر اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے۔ پھر اس نے دریافت کیا کہ پھر اس کے بعد کون سا بڑا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ و پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصدیق قرآن مجید میں نازل فرمائی کہ «وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يزنون وَمن يفعل ذَلِك يلق أثاما» الخ یعنی مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو معبود نہیں بناتے اور جس جان کو اللہ نے مارنے کو حرام ٹھہرایا ہے نہیں مارتے ہیں، مگر کسی حق کے ساتھ اور نہ بدکاری کرتے ہیں . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 49]

تخریج:
[صحيح بخاري 6861]،
[صحيح مسلم 86/142، ترقيم دارالسلام: 258]

فقہ الحدیث
«ند نظير» (مثل اور شریک) کو کہتے ہیں۔ دیکھئیے: [فتح الباري 163/8 تحت ح: 4477]
«انداد» سے اللہ کے سوا آلہہ (معبودان باطلہ) مراد ہیں۔ [النهايه فى غريب الحديث لابن الاثير ج5 ص35]
معلوم ہوا کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ»
بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔ [لقمٰن: 13]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ»
بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک معاف نہیں کرتا اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ [النساء: 116]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ»
بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو یقینا اللہ نے اس کے لئے جنت حرام قرار دی ہے اور اس شخص کا ٹھکانا (جہنم کی) آگ ہے۔ [المائدة: 72]
ان دلائل کے باوجود بہت سے لوگ شرک کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ شرک کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے سامنے کہیں گے:
«وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ»
اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے۔ [الانعام: 23]
ارشاد ہو گا:
«انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ»
دیکھو! یہ اپنے آپ پر کیسے جھوٹ بول رہے ہیں، اور جو (معبودان باطلہ) یہ لوگ گھڑتے تھے ان سے (آج) گم ہو گئے ہیں۔ [الانعام: 24]
➋ بےگناہ کا قتل کبیرہ گناہ ہے اور خاص طور پر غربت یا نام نہاد غیرت کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کر دینا بہت ہی بڑا گناہ ہے، جسے اس حدیث میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر ذکر کیا گیا ہے۔ دور جاہلیت میں بعض جاہل لوگ اپنی اولاد کو غربت یا جھوٹی عزت کی بنیاد پر قتل کر دیتے تھے۔ موجودہ دور میں اسقاط حمل اور خاندانی منصوبہ بندی بھی قتل اولاد کے مترادف ہے۔

تنبیہ:
اگر کسی شخص کی بیوی بیمار ہو یا اس کی موت یا شدید بیماری کا خوف ہو تو دوسرے دلائل کی رو سے شوہر عزل کر سکتا ہے۔ مثلاً دیکھئے: [صحیح مسلم: 138؍1440 وترقیم دار السلام: 3561]
بعض صحابہ وتابعین سے اس کا جواز اور بعض سے کراہت ثابت ہے۔ دیکھئے: [موطأ امام مالک ج2 ص595، مصنف ابن ابی شیبہ ج4 ص217۔ 222] اور [السنن الکبریٰ للبیہقی ج7 ص230۔ 231]
یاد رہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«تزو جوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم»
محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میری امت (سب سے) زیادہ ہو۔ [ابوداؤد: 2050 وسنده حسن، اضواءالمصابيح: 3091]
➌ زنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، لیکن اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا کئی گنا زیادہ جرم اور حرام ہے۔
➍ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، کیونکہ دونوں منزل من اللہ اور وحی ہیں۔ وحی میں تضاد و تعارض کبھی نہیں ہوتا۔
➎ صحابہ کرام علم سیکھنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔
➏ سوال کرنا تقلید نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»
اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر (علماء) سے پوچھ لیا کرو۔ [النحل: 43] ۔
عالم و مفتی کو چاہئے کہ وہ لوگون کو دلیل (کتاب وسنت اور اجماع) سے جواب دے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 49   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1257    
سب سے بڑے گناہ۔
«وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اي الذنب اعظم؟ قال: ‏‏‏‏ان تجعل لله ندا وهو خلقك ‏‏‏‏ قلت: ثم اي؟ قال: ‏‏‏‏ان تقتل ولدك خشية ان ياكل معك ‏‏‏‏ قلت: ثم اي؟ قال: ‏‏‏‏ان تزاني بحليلة جارك ‏‏‏‏ متفق عليه»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے لئے شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کرے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ کھائے گا میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ باہم بد کاری کرے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1257]
تخریج:
[بخاري 6861]،
[مسلم الايمان 142]،
[تحفة الاشراف7/42]

فوائد:
➊ سب گناہوں سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ ایسے لوگوں کو شریک اور برابر ٹھہرائے جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا «فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ» [2-البقرة:22] پس تم دیدہ دانستہ اللہ کے لئے شریک نہ بناؤ۔
یہ اللہ کی غیرت کو چیلنج ہے اور اتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسرے گناہ اگر اللہ چاہے تو بخش دے مگر اسے ہرگز معاف نہیں کرے گا۔
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48]
یقیناًً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔
اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر انبیاء بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کے تمام اعمال برباد ہو جائیں:
«وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ» [ 39-الزمر:65 ]
اور یقیناً وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرا عمل ضرور ہی ضائع ہو جائے گا اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔
➋ شرک کے بعد قتل ناحق اور اس کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ» [25-الفرقان:68]
اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔
قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خطرے سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا اور اللہ کے وعدے پر بھی یقین نہ کرے۔
«وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ» [ 17-الإسراء:31]
اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں۔
ایک قتل ناحق دو سرا اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم، تیسرا اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بدظنی۔
➌ زنا کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا» [17-الإسراء:32]
اور زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔
زنا کی قباحت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے کیونکہ ہمسایہ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے اس کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے لیکن اس کے برعکس جب ہمسایہ ہی اپنے ہمسائے کی عزت برباد کرے اس کی بیوی کو خاوند کے خلاف اپنی طرف مائل کرے اس کا گھر اجاڑنے کے درپے ہو جائے تو یہ زنا کے ساتھ کئی جرائم ملنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
«ان تراني» باب مفاعله سے ہے اس میں مشارکت ہوتی ہے یعنی ہمسائے کی بیوی بھی اس گناہ میں شریک ہو اس کی رضامندی سے تم یہ گناہ کرو۔ اس میں مزید قباحت اس لئے ہے کہ جب وہ کسی غیر کے ساتھ اپنی رضامندی کے ساتھ برائی کرے گی تو خاوند سے اس کی وفا ختم ہو جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کا گھر اجڑ جائے گا۔
«حليلة جارك» ہمسائے کی بیوی کو «حليلة» اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہوتی ہے مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہے تمہارے لئے حلال نہیں۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 84   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3182  
´سورۃ الفرقان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی ایک ذات نے تمہیں پیدا کیا ہے (اس کا کوئی شریک نہیں ہے)۔‏‏‏‏ میں نے کہا: پھر کون سا گناہ بہت بڑا ہے؟ فرمایا: یہ ہے کہ تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا، میں نے کہا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3182]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مؤلف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا﴾ (الفرقان: 68) کی تفسیرمیں ذکر کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3182   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2310  
´زنا بہت بڑا گناہ ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ) تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے، میں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا، میں نے کہا پھر اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو، نیز کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2310]
فوائد ومسائل:
1: سورۃ الاسراء میں ہے (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا) (بني إسرائیل:32) زنا کےے قریب نہ جاو۔
بلاشبہ یہ بے حیائی کا کام اور بہت راستہ ہے۔

2: لفظ تزاني میں ساز باز اور رضا مندی کا مفہوم پا یا جاتا ہے جب رضا مندی سے اس عمل کو برائی اور بے حیائی ثابت ہے تو جبرواکراہ سے یہ کام اور بھی زیادہ برترین ہوگا۔
شادی شدہ کے لئے اس کی حدرجم (سنگساری) اور غیر شادی شدہ کے لئے سو درے اور ایک سال کے لئے دیس نکالا (جلاوطن) ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2310   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7520  
7520. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا. [صحيح بخاري، حديث نمبر:7520]
حدیث حاشیہ:
زنا بہر حال برا کام ہے مگر یہ بہت ہی زیادہ برا ہے۔
امام بخاری نے یہ حدیث لا کراس طرف اشارہ کیا کہ قدریہ اورمعتزلہ جو بندے کو اپنے کا افعال کا خالق کہتے ہیں وہ گویا اللہ کا برابر والا بندے کو بتاتے ہیں توان کا یہ اعتقاد بہت بڑا گناہ ہوا۔
اللہ کی عبادت کے کاموں میں کسی غیر کو شریک ساجھی بنانا شرک ہے جواتنا بڑا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کئے مرنے والے مشرک کے لیے جنت قطعا حرام ہے۔
سارا قرآن مجید شرک کی برائی بیان کرنےسے بھرا ہواہے پھربھی نام نہاد مسلمان ہیں جنہوں نےمزارات بزرگان کاعبادت گاہ بنایا ہوا ہے۔
مزاروں پرسجدہ کرنا بزرگوں سےاپنی مرادیں مانگنا اس کے لیے نذر ونیاز کرناعام جہال نے معمول بنا رکھا ہے جو کھلا ہوا شرک ہے ایسے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اصل اسلام سے کس قدر دور جا پڑے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7520   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7520  
7520. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا. [صحيح بخاري، حديث نمبر:7520]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کئی ایک فتنوں نے جنم لیا۔
ان میں سے ایک فتنہ خلق قرآن کا تھا۔
کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مخلوق ہے۔
اس کے برعکس رد عمل کے طور پر بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن ہی غیر مخلوق نہیں بلکہ قرآن تلاوت کرتے وقت قاری کی آواز اور حروف بھی غیر مخلوق ہیں حتی کہ اس حد تک مبالغہ کیا گیا کہ کتابت قرآن کے بعد جو سیاہی اور کاغذ استعمال ہوا ہے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔
محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ قاری کی آواز اور ادا ہونے والے حروف تو مخلوق ہیں البتہ تلاوت کیا جانے والا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ تلاوت بندے کا فعل اور اس کا کسب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے پھر اسی بنیاد پر مسئلہ خلق افعال العباد پیدا ہوا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا کہ بندوں کے افعال ان کا کسب ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔
بہرحال انھیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ معتزلہ اور جہمیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تمھیں اور جو تم عمل کرتے ہو۔
(الصافات: 37۔
96)

لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہم سر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔
یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔
اگر انسان کی موت اسی عقیدے پر ہوئی تو ایسے مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کیا ہے قرآن مجید میں شرک کی قباحت و شناعت (گندگی)
بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں شرک کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے پیش کردہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا خالق نہیں۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے شرک پر مبنی عقیدہ ہے۔
وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کے متعلق سخت وعید ہے۔
احادیث میں شرک کو اکبر الکبائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس بنا پر یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7520