صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
42. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ رحمان میں) فرمان ”پروردگار ہر دن ایک نیا کام کر رہا ہے“۔
وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ وَإِنَّ مِمَّا أَحْدَثَ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ.
‏‏‏‏ اور (سورۃ انبیاء میں) فرمایا «ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث‏» کہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نیا حکم نہیں آتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الطلاق میں) فرمان «لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا» ممکن ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ صرف اتنی بات ہے کہ اللہ کا کوئی نیا کام کرنا مخلوق کے نئے کام کرنے سے مشابہت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الشوری) میں فرمایا ہے «ليس كمثله شىء وهو السميع البصير‏» اس جیسی کوئی چیز نہیں (نہ ذات میں، نہ صفات میں) اور وہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ اللہ تعالیٰ جو نیا حکم چاہتا ہے دیتا ہے اور اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو۔
حدیث نمبر: 7522
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ كُتُبِهِمْ، وَعِنْدَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَقْرَبُ الْكُتُبِ عَهْدًا بِاللَّهِ تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن وردان نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے مسائل کے بارے میں کیونکر سوال کرتے ہو، تمہارے پاس خود اللہ کی کتاب موجود ہے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے سب سے زیادہ قریب ہے، تم اسے پڑھتے ہو، وہ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7522  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ رحمان میں) فرمان پروردگار ہر دن ایک نیا کام کر رہا ہے`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ كُتُبِهِمْ، وَعِنْدَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَقْرَبُ الْكُتُبِ عَهْدًا بِاللَّهِ تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے مسائل کے بارے میں کیونکر سوال کرتے ہو، تمہارے پاس خود اللہ کی کتاب موجود ہے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے سب سے زیادہ قریب ہے، تم اسے پڑھتے ہو، وہ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7522]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7522 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
مختلف شارحین نے باب اور حدیث کی مناسبت مختلف زاویہ سے پیش فرمائی ہے۔
اس حقیر اور ناچیز بندہ کے نزدیک یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بڑے ہی دقیق انداز میں ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف نشاندہی فرما رہے ہیں کہ آیت مبارکہ جو پیش فرمائی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس طرح چاہے کوئی نیا حکم نازل کر دے اور جس طرح سے چاہے فیصلہ فرما دے، مگر اس کا حکم جو قرآن میں نازل ہو یا حدیث میں وہ ایک اٹل فیصلہ ہے، اس کے سوا اس میں کوئی اور مداخلت نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں کوئی نیا حکم جاری کر دے، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش فرمائی جو کہ اس بات پر واضح دال ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے «ذكر من ربهم محدث» ہو گا وہ مکمل طور پر محفوظ ہو گا، تحت الباب جس حدیث کا انتخاب فرمایا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس میں اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے بارے میں مسائل کو پوچھنا ناپسند فرمایا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اہل کتاب کی کتاب مخلوط ہو چکی ہے لیکن جو کتاب اللہ ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے اٹھائی ہے وہ مکمل طور پرمحفوظ ہے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بندوں کے افعال مخلوق ہیں، اسی لیے وہ غیر محفوظ ہو جاتے ہیں، جیسے کہ تحت الباب اہل کتاب کی کتاب ہے کیوں کہ اس میں تبدیلیاں اور تحریفات کے انبار ہیں، لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو افعال بندوں کی طرف سے ہوں گے تو کس طرح پائیدار ہو سکتے ہیں لیکن جو افعال اللہ کی طرف سے ہوں گے، وہی مکمل اور محفوظ ہوں گے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«و الاحتمال الأخير أقرب إلى مراد البخاري لما قدمت قبل أن مبني هذه التراجم عنده على إثبات أن أفعال العباد مخلوقة و مراده هنا الحدث بالنسبة للإنزال.» [فتح الباري: 421/14]
آخری احتمال امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد سے زیادہ قریب یہ ہے کہ جو قبل ازیں ذکر کیا ہے ان کے ہاں تراجم کی بنا اس امر کے اثبات پر ہے کہ بندوں کے افعال مخلوق ہیں اور یہاں ان کی مراد انزال کی نسبت سے محدث ہوتا ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اپنی عادت کے مطابق کہ «وكتابكم الذى أنزل الله عليكم أحدث الأخبار بالله»، لہٰذا یہ زیادہ امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد کے لائق ہے۔ [لب اللباب: 256/5]

امام بخاری رحمہ اللہ کا خلق قرآن پر الزام کی تفصیلی معلومات کے لیے مطالعہ کریں۔ [سير أعلام النبلاء: 463/12]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 324