صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
42. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ رحمان میں) فرمان ”پروردگار ہر دن ایک نیا کام کر رہا ہے“۔
حدیث نمبر: 7523
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ؟ وَكِتَابُكُمُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللَّهِ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ، وَقَدْ حَدَّثَكُمُ اللَّهُ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ بَدَّلُوا مِنْ كُتُبِ اللَّهِ وَغَيَّرُوا، فَكَتَبُوا بِأَيْدِيهِمُ الْكُتُبَ، قَالُوا: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِذَلِكَ ثَمَنًا قَلِيلًا، أَوَلَا يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مَسْأَلَتِهِمْ فَلَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا رَجُلًا مِنْهُمْ يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے، خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں، تم کو جو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7523  
7523. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ کے متعلق کیوں پوچھتے ہو؟ حالانکہ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی پر نازل کی ہے وہ اللہ کی ہاں سے بالکل تازہ آئی ہے۔ وہ خالص ہے۔ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں نیز اللہ تعالیٰ نے تمہیں خود بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو تبدیل اورمتغیر کر دیا ہے چنانچہ وہ اپنے ہاتھوں سے ایک کتاب لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی پونجی حاصل کر لیں۔ کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمہیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے جو تم سے اس کے متعلق دریافت کرے جو تم پر نازل ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7523]
حدیث حاشیہ:
اہل کتاب کی کتابیں پرانی اورمخلوط ہو چکی ہیں پھر تم کو کیا خبط ہو گیا ہے کہ تم ان سے پوچھتے ہو حالانکہ اکر وہ تم سے پوچھتے تو ایک بات تھی کیونکہ تمہاری کتاب بالکل مخفوظ اور نئی نازل ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7523   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7523  
7523. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ کے متعلق کیوں پوچھتے ہو؟ حالانکہ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی پر نازل کی ہے وہ اللہ کی ہاں سے بالکل تازہ آئی ہے۔ وہ خالص ہے۔ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں نیز اللہ تعالیٰ نے تمہیں خود بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو تبدیل اورمتغیر کر دیا ہے چنانچہ وہ اپنے ہاتھوں سے ایک کتاب لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی پونجی حاصل کر لیں۔ کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمہیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے جو تم سے اس کے متعلق دریافت کرے جو تم پر نازل ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7523]
حدیث حاشیہ:

اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسموں پر مشتمل ہیں۔
ذاتیہ۔
فعلیہ۔
صفات ذاتیہ وہ صفات ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا۔
جیسے العلم، القدرۃ، السمع اور البصر وغیرہ۔
صفات فعلیہ:
وہ صفات ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چاہت سے ہے وہ چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے مثلاً رزق دینا اور آسمان دنیا پر نزول فرمانا وغیرہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کے دو پہلو ہیں۔
اصل کے اعتبار صفت ذاتیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور ہمیشہ متکلم رہے گا لیکن کلام کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے یہ صفت فعلیہ ہے کیونکہ اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے۔

معتزلہ نے صفات فعلیہ کا اس لیے انکار کیا ہے کہ مخلوق کی بنا پر وہ حادث ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کا محل نہیں ہو سکتا۔
نیز وہ کہتے ہیں کہ قرآن (مُحدَث)
ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے (مُحدَث)
کہا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی موقف کی تردید کی ہے کیونکہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازہ تازہ نازل ہونے کے اعتبار سے محدث کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا ہے۔
وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے۔
ہر روز ایک نئی شان میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔
کوئی اس سے کھانے کو مانگ رہا ہے کوئی پینے کو۔
کوئی تندرستی کے لیے دعا کر رہا ہے تو کوئی اولاد کے لیے۔
کوئی گناہوں سے بخشش کی دعا کر رہا ہے تو کوئی اور درجات کی بلندی کے لیے دعا مانگ رہا ہے اور وہ سب مخلوق کی سنتا اور ان کی فریاد رسی کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن یہ کام کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں وہ ہر وقت نئی مخلوق وجود میں لا رہا ہے جس طرح انسانوں کی پیدائش بڑھ رہی ہے اسی طرح ہر ذی حیات کی نسل میں اضافہ ہو رہا ہے الغرض ہر روز اس کی ایک نئی آن اور نئی شان ہوتی ہے۔

بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفات فعلیہ سے بھی متصف ہے جیسے کلام کرنا، زندہ کرنا، مارنا، پیدا کرنا اور اترنا وغیرہ اس قسم کے افعال و انتظامات ہر ساعت نئے نئے نمودار ہوتے رہتے ہیں جن لوگوں نے صفات فعلیہ کا اس بنا پر انکار کیا ہے کہ وہ حادث ہیں اور حوادث ذات باری تعالیٰ کے شایان شان نہیں۔
بلا شبہ وہ علم سے کورے اور عقل سے فارغ ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7523