مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ -- 0
950. حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 21525
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ، وَأُمُّنَا، فانطلقنا حتى نزلنا على خال لنا ذي مال وذي هيئة، فأكرمنا خالنا وأحسن إلينا، فحسدنا قومه، فقالوا له: إنك إذا خرجت عَنْ أَهْلِكَ، خَلَفَكَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْهِ مَا قِيلَ لَهُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ، فَقَدْ كَدَّرْتَهُ، وَلَا جِمَاعَ لَنَا فِيمَا بَعْدُ، قَالَ: فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا، فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا، وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ وَجَعَلَ يَبْكِي، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ، قَالَ: فَنَافَرَ أُنَيْسٌ رَجُلًا عَنْ صِرْمَتِنَا، وَعَنْ مِثْلِهَا، فَأَتَيَا الْكَاهِنَ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا، فَأَتَانَا بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا، وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ سِنِينَ، قَالَ: فَقُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: حَيْثُ وَجَّهَنِي اللَّهُ، قَالَ: وَأُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، قَالَ: أَبِي، قَالَ أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ سُلَيْمَانُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، قَالَ: يَعْنِي خَبِاءً، تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ، قَالَ: فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ، فَاكْفِنِي حَتَّى آتِيَكَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَيَّ، ثُمَّ أَتَانِي، فَقُلْتُ: مَا حَبَسَكَ؟ قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ عَلَى دِينِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا يَقُولُ النَّاسُ لَهُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: إِنَّهُ شَاعِرٌ وَسَاحِرٌ وَكَاهِنٌ، وَكَانَ أُنَيْسٌ شَاعِرًا، قَالَ: فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكُهَّانِ، فَمَا يَقُولُ بِقَوْلِهِمْ، وَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ، فَوَاللَّهِ مَا يَلْتَئمُ لِسَانُ أَحَدٍ أَنَّهُ شِعْرٌ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ، وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ أَنْتَ كَافِيَّ حَتَّى أَنْطَلِقَ فَأَنْظُرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَكُنْ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ عَلَى حَذَرٍ، فَإِنَّهُمْ قَدْ شَنِفُوا لَهُ وَتَجَهَّمُوا لَهُ، وَقَالَ عَفَّانُ : شِئفُوا لَهُ، وَقَالَ بَهْزٌ : سَبَقُوا لَهُ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ: شَفَوْا لَهُ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ، فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ إِلَيَّ، قَالَ: الصَّابِئُ، قَالَ: فَمَالَ أَهْلُ الْوَادِي عَلَيَّ بِكُلِّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ، فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَغَسَلْتُ عَنِّي الدَّمَ، فَدَخَلْتُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، فَلَبِثْتُ بِهِ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ، مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، مَالِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سَخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: فَبَيْنَا أَهْلُ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ أَضْحِيَانٍ، وَقَالَ عَفَّانُ إِصْخِيَانٍ، وَقَالَ بَهْزٌ إِضْحِيَانٍ، وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو النَّضْرِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى أَصْمِخَةِ أَهْلِ مَكَّةَ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ غَيْرُ امْرَأَتَيْنِ، فَأَتَتَا عَلَيَّ وَهُمَا تَدْعُوَانِ إِسَافَ وَنَائِلَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْكِحُوا أَحَدَهُمَا الْآخَرَ، فَمَا ثَنَاهُمَا ذَلِكَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ، فَقُلْتُ: وَهَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ، غَيْرَ أَنِّي لَمْ أُكَنِّ، قَالَ: فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا! قَالَ: فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ مِنَ الْجَبَلِ، فَقَالَ:" مَا لَكُمَا"، فَقَالَتَا: الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، قَالَا:" مَا قَالَ لَكُمَا؟" قَالَتَا: قَالَ: لَنَا كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ، قَالَ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَصَاحِبُهُ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ صَلَّى، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ:" عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، مِمَّنْ أَنْتَ؟" قَالَ: قُلْتُ مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ، فَوَضَعَهَا عَلَى جَبْهَتِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: فِي نَفْسِي كَرِهَ أَنِّي انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ آخُذَ بِيَدِهِ، فَقَذَفَنِي صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي، قَالَ:" وَمَتَى كُنْتَ هَا هُنَا"، قَالَ: كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ مِنْ بَيْنِ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، قَالَ:" فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟" قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، قَالَ: فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، وَإِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، حَتَّى فَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ، قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، فَلَبِثْتُ مَا لَبِثْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ وُجِّهَتْ إِلَيَّ أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ، وَلَا أَحْسَبُهَا إِلَّا يَثْرِبَ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ؟"، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ أُنَيْسًا، قَالَ: فَقَالَ لِي: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي صَنَعْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: قَالَ: فَمَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، ثُمَّ أَتَيْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: فَمَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَتَحَمَّلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ بَعْضُهُمْ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَقَالَ، يَعْنِي يَزِيدَ بِبَغْدَادَ، وَقَالَ: بَعْضُهُمْ إِذَا قَدِمَ، وَقَالَ بَهْزٌ إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ، وَكَذَا قَالَ أَبُو النَّضْرِ: وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ خُفَافُ بْنُ إِيمَاءِ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ، وَكَانَ سَيِّدَهُمْ يَوْمَئِذٍ، وَقَالَ: بَقِيَّتُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَأَسْلَمَ بَقِيَّتُهُمْ، قَالَ: وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ، فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ"، وَقَالَ بَهْزٌ وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ إِيمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ، فَقَالَ أَبُو النَّضْرِ إِيمَاءٌ ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے اور وہ حرمت والے مہینے کو بھی حلال جانتے تھے۔ پس میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری والدہ نکلے ہم ماموں کے ہاں اترے جو بڑے مالدار اور اچھی حالت میں تھے ہمارے ماموں نے ہمارا اعزازو اکرام کیا اور خوب خاطر مدارت کی جس کی وجہ سے ان کی قوم نے ہم پر حسد کیا اور انہوں نے کہا (ماموں سے) کہ جب تو اپنے اہل سے نکل کرجاتا ہے تو انیس ان سے بدکاری کرتا ہے ہمارے ماموں آئے اور ان سے جو کچھ کہا گیا تھا وہ الزام ہم پر لگایا، میں نے کہا کہ آپ نے ہمارے ساتھ جو احسان و نیکی کی تھی اسے اس الزام کی وجہ سے خراب کردیا ہے پس اب اس کے بعد ہمارا آپ سے تعلق اور نبھاؤ نہیں ہوسکتا چنانچہ ہم اپنے اونٹوں کے قریب آئے اور ان پر اپنا سامان سوار کیا اور ہمارے ماموں نے کپڑا ڈال کر رونا شروع کردیا اور ہم چل پڑے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچے پھر پس انیس ہمارے اونٹوں میں مزید اتنے ہی اور اونٹوں کو لے کر آیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات سے تین سال پہلے سے ہی اے بھتیجے نماز پڑھا کرتا تھا حضرت عبداللہ بن صامت کہتے ہیں میں نے کہا کس کی رضا کے لئے؟ انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے، میں نے کہا آپ اپنا رخ کس طرف کرتے تھے؟ انہوں نے کہ جہاں میرا رب میرا رخ کردیتا اسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجاتا۔ انیس نے کہا مجھے مکہ میں ایک کام ہے تو میرے معاملات کی دیکھ بھال کرنا چنانچہ انیس چلا یہاں تک کہ مکہ آیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو میں نے کہا تو نے کیا کیا اس نے کہا میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بنا کر) بھیجا ہے میں نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اسے شاعر کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود شاعروں میں سے تھا انیس نے کہا، میں کاہنوں کی باتیں سن چکا ہوں لیکن اس کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے اور تحقیق میں نے اس کے اقوال کا شعراء کے اشعار سے بھی موازنہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر بھی نہیں ہیں، اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ جھوٹے ہیں میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جا کر دیکھ آؤں چنانچہ میں مکہ آیا اور ان میں سے ایک کمزور آدمی سے مل کر پوچھا وہ کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو؟ پس اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ دین بدلنے والا ہے، وادی والوں میں سے ہر ایک یہ سنتے ہی مجھ پر ڈھیلوں اور ہڈیوں کے ساتھ ٹوٹ پڑا یہاں تک کہ میں بےہوش ہو کر گرپڑا، پس جب میں بیہوشی سے ہوش میں آکر اٹھا تو میں گویا سرخ بت (خون میں لت پت) تھا۔ میں زمزم کے پاس آیا اور اپنا خون دھویا پھر اس کا پانی پیا اور میں اے بھتیجے! تیس رات اور دن وہاں ٹھہرا رہا اور میرے پاس زمزم کے پانی کے سوا کوئی خوارک نہ تھی، پس میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں بھی ختم ہوگئیں اور نہ ہی میں نے اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی محسوس کی۔ اسی دوران ایک چاندنی رات میں جب اہل مکہ سوگئے اور اس وقت کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا تھا صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ (بتوں) کو پکار رہی تھیں جب وہ اپنے طواف کے دوران میرے قریب آئیں تو میں نے کہا اس میں سے ایک (بت) کا دوسرے کے ساتھ نکاح کردو (اساف مرد اور نائلہ عورت تھی اور باعتقاد مشرکین مکہ یہ دونوں زنا کرتے وقت مسخ ہو کر بت ہوگئے تھے) لیکن وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں پس جب وہ میرے قریب آئیں تو میں نے بغیر کنایہ اور اشارہ کے یہ کہہ دیا کہ فلاں کے (فرج میں) لکڑی، پس وہ چلاتی ہوئی تیزی سے بھاگ گئیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی موجود ہوتا، راستہ میں انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ پہاڑی سے اترتے ہوئے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک دین کو بدلنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا اس نے ہمیں ایسی بات کہی ہے جو منہ کو بھر دیتی ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی کے ہمراہ آئے، حجر اسود کا استلام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھی نے طواف کیا پھر نماز ادا کی، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں وہ پہلا آدمی تھا جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمتیں ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں قبیلہ غف