صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
1. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ جل جلالہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
ثُمَّ إِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ مُبْتَدِئُونَ فِي تَخْرِيجِ مَا سَأَلْتَ وَتَأْلِيفِهِ عَلَى شَرِيطَةٍ سَوْفَ أَذْكُرُهَا لَكَ وَهُوَ إِنَّا نَعْمِدُ إِلَى جُمْلَةِ مَا أُسْنِدَ مِنَ الأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَقْسِمُهَا عَلَى ثَلاَثَةِ أَقْسَامٍ وَثَلاَثِ طَبَقَاتٍ مِنَ النَّاسِ عَلَى غَيْرِ تَكْرَارٍ. إِلاَّ أَنْ يَأْتِيَ مَوْضِعٌ لاَ يُسْتَغْنَى فِيهِ عَنْ تَرْدَادِ حَدِيثٍ فِيهِ زِيَادَةُ مَعْنًى أَوْ إِسْنَادٌ يَقَعُ إِلَى جَنْبِ إِسْنَادٍ لِعِلَّةٍ تَكُونُ هُنَاكَ لأَنَّ الْمَعْنَى الزَّائِدَ فِي الْحَدِيثِ الْمُحْتَاجَ إِلَيْهِ يَقُومُ مَقَامَ حَدِيثٍ تَامٍّ فلابد مِنْ إِعَادَةِ الْحَدِيثِ الَّذِي فِيهِ مَا وَصَفْنَا مِنَ الزِّيَادَةِ أَوْ أَنْ يُفَصَّلَ ذَلِكَ الْمَعْنَى مِنْ جُمْلَةِ الْحَدِيثِ عَلَى اخْتِصَارِهِ إِذَا أَمْكَنَ. وَلَكِنْ تَفْصِيلُهُ رُبَّمَا عَسُرَ مِنْ جُمْلَتِهِ فَإِعَادَتُهُ بِهَيْئَتِهِ إِذَا ضَاقَ ذَلِكَ أَسْلَمُ فَأَمَّا مَا وَجَدْنَا بُدًّا مِنْ إِعَادَتِهِ بِجُمْلَتِهِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنَّا إِلَيْهِ فَلاَ نَتَوَلَّى فِعْلَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى. فَأَمَّا الْقِسْمُ الأَوَّلُ فَإِنَّا نَتَوَخَّى أَنْ نُقَدِّمَ الأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنَ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا وَأَنْقَى مِنْ أَنْ يَكُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمِ اخْتِلاَفٌ شَدِيدٌ وَلاَ تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ كَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَى كَثِيرٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَبَانَ ذَلِكَ فِي حَدِيثِهِمْ فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنَ النَّاسِ أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالإِتْقَانِ كَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ عَلَى أَنَّهُمْ وَإِنْ كَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ فَإِنَّ اسْمَ السِّتْرِ وَالصِّدْقِ وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ كَعَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ وَلَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ
پھر آپ نے جس (کتاب) کا مطالبہ کیا ہم ان شاء اللہ اس التزام کے ساتھ اس کی اس کی تخریج (مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت) اور تالیف کا آغاز کرتے ہیں جس کا میں آپ کے سامنے ذکر کرنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام احادیث کو لے لیں گے جو سنداًً نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی گئیں اور تکرار کے بغیر انہیں تین اقسام اور (بیان کرنے والے) لوگوں کے تین طبقوں کے مطابق تقسیم کریں گے، الا یہ کہ کوئی ایسا مقام آ جائے جہاں کسی حدیث کو دوبارہ ذکر کیے بغیر چارہ نہ ہو، (مثلاًً:) اس میں کوئی معنیٰ زیادہ ہو یا کوئی سند ایسی ہو جو کسی علت یاسبب کی بنا پر دوسری سند کے پہلو بہ پہلو آئی ہو کیونکہ حدیث میں ایک زائد معنیٰ، جس کی ضرورت ہو، ایک مکمل حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے، اس لیے ایسی حدیث کو، جس میں ہمارا بیان کردہ کوئی (معنوی) اضافہ پایا جاتا ہے، دوبارہ لائے بغیر چارہ نہیں یا جب ممکن ہوا تو ہم اس معنیٰ کو اختصار کے ساتھ پوری حدیث سے الگ (کر کے) بیان کر دیں گے لیکن بسا اوقات اسے پوری حدیث سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کی گنجائش نہ ہو تو اسے اصل شکل میں دوبارہ بیان کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے، البتہ جہاں ہمارے لیے اسے مکمل طور پر دہرانے سے بچنا ممکن ہو گا اور (کامل شکل میں) ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو گی تو ہم ان شاء اللہ اس سے اجتناب کریں گے۔

جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے (اس میں) ہم یہ کوشش کریں گے کہ انہی احادیث کو ترجیح دیں جو دوسری احادیث کی نسبت (فنی) خامیوں سے زیادہ محفوظ اور زیادہ پاک ہوں، یعنی ان کے ناقلین (راوی) نقل حدیث میں صحت اور ثقاہت رکھنے والے ہوں، ان کی روایت میں شدید اختلاف پایا جائے نہ (الفاظ ومعانی کو) بہت برے طریقے سے خلط ملط کیا گیا ہو جس طرح کہ بہت سے احادیث بیان کرنے والوں میں پایا گیا ہے اور ان کی روایت میں یہ چیز واضح ہو چکی ہے۔

جب ہم اس قسم کے (ثقہ) لوگوں کی مرویات کا احاطہ کر لیں گے تو بعد ازیں ایسی روایات لائیں گے جن کی سندوں میں کوئی ایسے راوی موجود ہوں گے جو طبقہ اولیٰ جیسے (راویوں کے) حفظ واتقان سے متصف نہیں لیکن وہ بھی (انہی میں سے ہیں) چاہے ان صفات میں ان سے ذرا کم ہیں جن کو ان سے مقدم رکھا گیا ہے لیکن عفت، صدق اور علم سے شغف رکھنے جیسی صفات ان میں عام ہوں، جس طرح عطاء بن سائب، یزید بن ابی زیاد، لیث بن ابی سلیم اور ان کی طرح کے (دیگر) حاملین آثار اور ناقلین اخبار ہیں۔