صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
1. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ جل جلالہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
وَفِي مِثْلِ مَجْرَى هَؤُلاَءِ إِذَا وَازَنْتَ بَيْنَ الأَقْرَانِ كَابْنِ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ مَعَ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ وَأَشْعَثَ الْحُمْرَانِيِّ وَهُمَا صَاحِبَا الْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ كَمَا أَنَّ ابْنَ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ صَاحِبَاهُمَا إِلاَّ أَنَّ الْبَوْنَ بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ هَذَيْنِ بَعِيدٌ فِي كَمَالِ الْفَضْلِ وَصِحَّةِ النَّقْلِ وَإِنْ كَانَ عَوْفٌ وَأَشْعَثُ غَيْرَ مَدْفُوعَيْنِ عَنْ صِدْقٍ وَأَمَانَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَلَكِنَّ الْحَالَ مَا وَصَفْنَا مِنَ الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَإِنَّمَا مَثَّلْنَا هَؤُلاَءِ فِي التَّسْمِيَةِ لِيَكُونَ تَمْثِيلُهُمْ سِمَةً يَصْدُرُ عَنْ فَهْمِهَا مَنْ غَبِيَ عَلَيْهِ طَرِيقُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْتِيبِ أَهْلِهِ فِيهِ فَلاَ يُقَصَّرُ بِالرَّجُلِ الْعَالِي الْقَدْرِ عَنْ دَرَجَتِهِ وَلاَ يُرْفَعُ مُتَّضِعُ الْقَدْرِ فِي الْعِلْمِ فَوْقَ مَنْزِلَتِهِ وَيُعْطَى كُلُّ ذِي حَقٍّ فِيهِ حَقَّهُ وَيُنَزَّلُ مَنْزِلَتَهُ. وَقَدْ ذُكِرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ. مَعَ مَا نَطَقَ بِهِ الْقُرْآنُ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:{وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ}
اگر آپ (دیگر) ہمسروں کے درمیان موازنہ کریں تو (بھی) یہی ماجرا (سامنے آتا) ہے، مثلاًً آپ ابن عون اور ایو ب سختیانی کا (موازنہ) عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی سے کریں۔ یہ دونوں (بھی اسی طرح) حسن بصری اور ابن سیرین کے شاگرد ہیں جس طرح ابن عون اور ایو ب ان کے شاگرد ہیں لیکن ان دونوں اور ان دونوں کے درمیان کمال فضل اور صحت نقل کے اعتبار سے بہت بڑا فاصلہ پایا جاتا ہے۔ عوف اور اشعث بھی اگرچہ اہل علم کے ہاں صدق وامانت سے ہٹے ہوئے نہیں (مانے جاتے) لیکن جہاں تک مرتبے کا تعلق ہے تو اہل علم کے ہاں حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی۔

ہم نے نام ذکر کر کے مثال اس لیے دی ہے تاکہ اس شخص کے لیے، جو اہل علم کے ہاں حاملین حدیث کی درجہ کے طریقے سے ناواقف ہے، یہ مثال ایسا واضح نشان ثابت ہو جس کے ذریعے سے وہ مکمل واقفیت حاصل کر لے اور اونچا درجہ رکھنے والے کو اس کے مرتبے سے گٹھائے اور نہ کم درجے والے کو اس کے مرتبے سے بڑھائے، ہر ایک کو اس کا حق دے اور اس کے مرتبے پر رکھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی، انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کا حکم جو قرآن نے بیان فرمایا: «وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ» ہر علم والے سے اوپر ایک علم رکھنے والا ہے۔ [12-يوسف:76]