صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
1. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ جل جلالہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
فَمِنْ هَذَا الضَّرْبِ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَيَحْيَى بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ وَالْجَرَّاحُ بْنُ الْمِنْهَالِ أَبُو الْعَطُوفِ وَعَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ وَحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضُمَيْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ صُهْبَانَ وَمَنْ نَحَا نَحْوَهُمْ فِي رِوَايَةِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْحَدِيثِ.
اس قسم کے راویان حدیث میں عبداللہ بن محرر، یحییٰ بن ابی انیسہ، جراح بن منہال ابوعطوف، عباد بن کثیر، حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ، عمر بن صہبان اور اس طرح کے دیگر منکر روایات بیان کرنے والے لوگ شامل ہیں، ہم ان کی روایت کا رخ نہیں کرتے نہ ان روایات سے کوئی سروکار ہی رکھتے ہیں۔

کیونکہ حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ (راوی) عام طور پر اہل علم وحفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ (متفرد) کوئی ایسا اضافہ بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ (محدثین کے ہاں) قبول کیا جائے گا۔

لیکن جس (حدیث بیان کرنے والے) کو آپ دیکھیں کہ وہ امام زہری جیسے جلیل القدر (محدث) سے روایت بیان کرتا ہے جن کے کثیر تعداد میں ایسے شاگر د ہیں جو حفاظ (حدیث) ہیں، ان کی اور دوسرے (محدثین) کی روایت کے ماہر ہیں یا وہ ہشام بن عر وہ جیسے (امام التابعین) سے روایت کرتا ہے۔ ان دونوں کی احادیث تو اہل علم کے ہاں خوب پھیلی ہوئی ہیں، وہ سب ان کی روایت میں (ایک دوسرے کے ساتھ) اشتراک رکھتے ہیں اور ان دونوں کی اکثر احادیث میں ان کے شاگرد ایک دوسرے سے متفق ہیں اور یہ شخص ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے متعدد ایسی احادیث روایت کرے جن میں ان کے شاگردوں میں سے اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تو اس جیسے لوگوں سے اس قسم کی کوئی حدیث قبول کرناجائز نہیں۔ اللہ (ہی) زیادہ جاننے والا ہے۔