صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
2. باب فِي التَّحْذِيرِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کتنا بڑا گناہ ہے۔
حدیث نمبر: 3
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّه قَالَ: إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: مجھے تمہارے سامنے زیادہ احادیث بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ بولا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے
حضرت انس بن مالکؓ‎ بیان کرتے ہیں: میں تمھیں زیادہ حدیثیں اس لیے نہیں سناتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا ہے: جو جان بوجھ کر (جانتے ہوئے) میری طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم بنا لے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما فى ((التحفة)) برقم (1002) - وهو عند الترمذي فى العلم، باب: ما جاء فى تعظيم الكذب على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (2663) بلفظ: ((من كذب على حسبت انه قال: متعمدا فليتبوا مقعده من النار)) - وهو فى جامع الأصول برقم (8205)»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث32  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑنے پر سخت گناہ (جہنم) کی وعید۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میرے اوپر جھوٹ باندھے (انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ آپ نے «متعمدا» بھی فرمایا یعنی جان بوجھ کر ۱؎ تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 32]
اردو حاشہ:
➊ راوی (غالبا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
کو یہ شک ہے کہ «مُتَعَمِّدًا»  کا کلمہ بھی فرمایا یا نہیں
اور باقی حدیث میں کوئی شک نہیں۔

➋ یہ راوی کی دیانتداری ہے کہ
اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات
میں سے جس کلمہ پر شک تھا
اس نے اس کا برملا اظہار کر دیا۔

➌ دیگر روایات سے واضح ہے کہ
«مُتَعَمِّدًا»  کا کلمہ حدیث رسول میں شامل ہے۔
اسے راوی کا شک کہنا درست نہیں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 32   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث، صحيح مسلم: 3  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ہر وقت احادیث بیان کرنے میں بھول چوک کا احتمال ہے،
اس لیے جو انسان پوری احتیاط اور حزم سے کام نہیں لیتا،
وہ گویا کہ عمداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے،
لیکن اگر کوئی انسان پورے طور پر حزم و احتیاط سے سے کام لے کر ان روایات کو بیان کرتا ہے،
جو اسے پوری طرح یاد ہیں،
اور اس کو یقین ہے،
تو پھر معمولی چوک کا خطرہ نہیں،
کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے،
یا کتاب سامنے رکھ کر بیان کرتا ہے۔
اور «فَلْيَتَبَوَّأْ» امر کا صیغہ ہے،
لیکن خبر کے معنی میں ہے:
کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
یا یہ دعا ہے:
کہ اللہ تعالیٰ اس کا ٹھکانا جہنم بنائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3